سرکاری عہدیداروں کے ایک ہزار سی سی سے زائد کی گاڑیوں کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 05 جولائ 2022
ٹریڈرز ویلفیئر ایسوسی ایشن آف سپر مارکیٹ کے صدر نے کہا پابندی سے ایندھن کے استعمال میں  نمایاں کمی ہو گی — فائل فوٹو : اے ایف پی
ٹریڈرز ویلفیئر ایسوسی ایشن آف سپر مارکیٹ کے صدر نے کہا پابندی سے ایندھن کے استعمال میں نمایاں کمی ہو گی — فائل فوٹو : اے ایف پی

ملک میں شدید معاشی اور توانائی بحران کے دوران تاجروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کا استعمال کم کرنے اور توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے حکومتی عہدیداروں کے ایک ہزار سی سی سے زیادہ پاور والے انجن کی حامل گاڑیوں کو درآمد کرنے اور ان کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ٹریڈرز ویلفیئر ایسوسی ایشن آف سپر مارکیٹ کے صدر سرفراز مغل کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کے سلسلے سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے لیے ملک کو پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات میں نمایاں کمی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان مصنوعات کی درآمد کے باعث قومی خزانے پر سالانہ 20 ارب ڈالر کا بوجھ پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری عہدیداروں کے لیے ایک ہزار سی سی سے زیادہ پاور کی گاڑیوں کے استعمال پر پابندی سے ایندھن کے استعمال میں بہت نمایاں کمی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: آٹو سیکٹر کو ہزار سی سی تک کی گاڑیوں کیلئے ٹیکس ریلیف ملنے کا امکان

سرفراز مغل نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے ملک میں سرکاری عہدیدارں کے لیے پابندی کا اقدام اور فیصلہ کوئی اجنبی یا نیا فیصلہ نہیں ہوگا، 1985 میں سابق وزیر اعظم مرحوم محمد خان جونیجو کے دور میں اس طرح کی ایک پالیسی کا اعلان کیا گیا تھا کہ سرکاری دفاتر اور عہدیدار صرف 800 سی سی کاریں اور گاڑیاں استعمال کریں گے۔

محمد خان جونیجو نے 1985 میں کفایت شعاری مہم کا اعلان کیا تھا جس کے تحت سرکاری عہدیداروں کے لیے لگژری گاڑیوں کو 800 سی سی سے ایک ہزار سی سی کی کاروں اور گاڑیوں سے تبدیل کر دیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس پالیسی کے تحت ملٹری اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام سرکاری افسران کے لیے چھوٹی کاریں اور گاڑیاں استعمال کرنا لازمی قرار دیا گیا تھا۔

اس کفایت شعاری مہم کے دوران محمد خان جونیجو کا دفتر اور سرکاری رہائش گاہ بھی سرکاری افسران کے لیے کفایت شعاری کی مثال بن گئی تھی کیونکہ وزیراعظم نے اپنے ذاتی اور خاندانی مہمانوں کی خاطر تواضع بھی اپنے ذاتی فنڈز سے کرنا شروع کردی تھی۔

مزید پڑھیں: نئی آٹو پالیسی میں الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ پر توجہ مرکوز

سرفراز مغل نے مزید کہا کہ ہم تقریباً 20 ارب ڈالر کی پیٹرولیم مصنوعات درآمد کر رہے ہیں، ہمارے دیگر قومی اخراجات میں زرمبادلہ کے ذریعے غیر ملکی قرضوں پر سود کی ادائیگی بھی شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قوم متحد ہو کر قرضوں کی واپسی کی حکمت عملی وضع کرے۔

انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں اور تاجروں کو قومی قرض کی ادائیگی کے لیے اپنی دولت میں سے اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔

انہوں نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 1990 کی دہائی میں جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کا دور حکومت تھا اس میں 'قرض اتارو ملک سنوارو' اسکیم شروع کی گئی تھی تو قوم نے اس میں بھی اپنا حصہ ڈالا تھا۔

سرفراز مغل نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ایک مشترکہ اکاؤنٹ کھولا جائے اور ملک کی اشرافیہ، امیر و مراعات یافتہ طبقے سے اس اکاؤنٹ میں رقم جمع کرنے کی درخواست کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: اون یا پریمیم پر گاڑیوں کی فروخت: معیشت کو کتنا نقصان ہورہا ہے؟

آئی ایم ایف کے ساتھ اکاؤنٹ کھولنے کی تجویز پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایک اور تاجر شیخ محمد غوث کا کہنا تھا کہ اکاؤنٹ کی تفصیلات روزانہ کی بنیاد پر میڈیا کے ساتھ شیئر کی جائیں تاکہ ملک کا قرضہ اتارنے کے نیک مقصد کی ساکھ قائم ہو سکے اور لوگوں کو باخبر رکھا جاسکے کہ کتنا قرضہ ادا کردیا گیا ہے اور کتنا قرضہ مزید ادا کرنا باقی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج ہماری معیشت شدید دباؤ اور بدحالی کا شکار ہے اور آئی ایم ایف نے ہمیں اس کی تمام شرائط ماننے پر مجبور کیا ہے۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ایک اور تاجر چوہدری ندیم کا کہنا تھا کہ پوری قوم کو قومی قرض کی ادائیگی کے لیے اپنا حصہ ڈالنا چاہیے اور اشرافیہ، مراعات یافتہ طبقے کو اس نیک مقصد میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینا چاہیے کیونکہ گزشتہ 70 سال کے دوران امیر لوگوں نے اس ملک سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں