'بچوں کے جنسی استحصال کے 20 لاکھ کیسز کے باوجود صرف 343 رپورٹ ہوئے'

اپ ڈیٹ 22 جولائ 2022
ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل محمد طاہر رائے تقریب سے خطاب کررہے ہیں — فوٹو: زندگی ٹرست
ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل محمد طاہر رائے تقریب سے خطاب کررہے ہیں — فوٹو: زندگی ٹرست

جہاں 2021 میں ملک میں بچوں کے استحصال کی تصاویر کے 20 لاکھ سے زیادہ کیسز فیس بک پر اپ لوڈ کیے گئے، وہیں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 343 بتاتے ہوئے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ کیسز کی رپورٹ کریں اور جنسی استحصال کرنے والوں کے خلاف شکایات درج کروائیں۔

ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل محمد طاہر رائے نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے اور یہاں قوانین کا نفاذ میرا فرض ہے، سائبر اسپیس میں بچوں کے حقوق کا تحفظ انتہائی ضروری ہے، بدقسمتی سے ہم ان ممالک میں شامل ہیں جہاں سب سے زیادہ واقعات ہیں جن کی تعداد 2021 میں 21 لاکھ تھی۔

مزید پڑھیں: پاکستان: بچوں کے جنسی استحصال میں 33 فیصد اضافہ

ان کا کہنا تھا کہ لیکن ہماری قوم ان کی اطلاع قانون نافذ کرنے والے اداروں اور میٹا کو بھی نہیں دے رہی، اس کی وجہ سے پچھلے پانچ سالوں میں صرف 343 ایسے کیس رپورٹ ہوئے ہیں، مجھے خوشی ہے کہ میٹا اپنے پلیٹ فارم سے اس طرح کے مواد کو ہٹا رہا ہے۔

ایف آئی اے کے سربراہ حسین آباد کے گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج آف ایجوکیشن میں میٹا کے اشتراک اور زندگی ٹرسٹ کے تعاون سے منعقدہ ایک تقریب میں چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ڈیجیٹل سیفٹی ڈائیلاگ سے خطاب کر رہے تھے۔

ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے نمائندوں کے ہمراہ طاہر رائے نے پاکستان میں رپورٹ ہونے والے کیسز کی کمی کی نشاندہی کی اور لوگوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ایف آئی اے کو فوری کارروائی کرنے میں مدد کے لیے کیسز کو رپورٹ کریں اور جنسی استحصال کرنے والوں کے خلاف شکایات درج کریں۔

میٹا کے مطابق پاکستان میں 2021 میں بچوں کے استحصال کی تصاویر فیس بک پر اپ لوڈ کرنے کے 20 لاکھ سے زیادہ واقعات ہوئے۔

میٹا میں ٹرسٹ اینڈ سیفٹی، لا انفورسمنٹ اور آؤٹ ریچ کے منیجر مائیکل یون نے آن لائن شرکت کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان میں ایف آئی اے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر سائبر کرائمز بشمول بلیک میل، بھتہ خوری، دہشت گردی وغیرہ میں ملوث مجرموں کو پکڑنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بچوں کا جنسی استحصال کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ

میٹا میں حفاظتی پالیسی کی سربراہ شیریں وکیل نے بھی آن لائن شرکت کرتے ہوئے سامعین کو میٹا پر نوجوان صارفین کے لیے دستیاب حفاظتی اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا تاکہ آن لائن شکار کرنے والوں سے خود کو محفوظ رکھا جا سکے۔

بچوں کے حقوق سے متعلق قومی کمیشن کے رکن اقبال ڈیتھو نے پاکستان الیکٹرانک کرمنل ایکٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان پینل کوڈ پر نظرثانی کرنے اور ڈیجیٹل جگہوں میں بچوں کی حفاظت کے لیے ترامیم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے انصاف دلانے اور متاثرین کو قانونی امداد فراہم کرنے کے لیے صوبائی سطح پر پالیسی سازی کے نفاذ پر بھی زور دیا۔

ڈائریکٹر پبلک پالیسی، جنوبی ایشیا میٹا صارم عزیز نے کہا کہ بچوں کے استحصال اور بدسلوکی سے متعلق مواد کے لیے ان کے پاس عدم برداشت کی پالیسی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور تشدد سے متعلق مواد کو روکنے، ان کا پتا لگانے اور ہٹانے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: بچوں کے جنسی استحصال کی تفتیش اے ایس پی یا زائد رینک کا افسر کرے گا، عدالت

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے، اس لیے ہم اپنے ایپس کے خاندان کو اس طرح کے بدنیتی پر مبنی مواد سے پاک رکھنے کے لیے ایک جامع طریقہ اختیار کرتے ہیں اور مقامی حکام، حقوق کے اداروں اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعاون جاری رکھتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ متاثرین کو شیئر کرنے سے بار بار صدمے کا سامنا نہ ہو۔

مہم کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے زندگی ٹرسٹ کے بانی اور صدر شہزاد رائے نے کہا کہ جب بھی انہیں پریشان کن مواد کا سامنا ہوا، تو وہ اسے شیئر کرنا چاہیں گے تاکہ اس سے مجرم کو تلاش کرنے میں مدد مل سکے۔

تبصرے (0) بند ہیں