سابق وزیر داخلہ اور چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے داخلہ سینیٹر رحمٰن ملک نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان پینل کوڈ میں ترمیم کرکے بچوں کا جنسی استحصال کرنے والوں کو سرعام پھانسی دی جائے۔

اس حوالے سے انہوں نے سینیٹ کو ایک خط لکھا، جس میں کہا کہ بچوں سے زیادتی کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینے کے ترمیمی بل کو جلد پاس کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ زینب اور عاصمہ کے قاتلوں کو سرعام پھانسی دے کر عبرت کا نشانہ بنایا جائے اور پاکستان پینل کوڈ 364 اے میں فوری طور پر ترمیم کرکے سرعام پھانسی کے الفاظ شامل کیے جائیں۔

مزید پڑھیں: زینب قتل کیس: ایک شخص کا ڈی این اے ٹیسٹ مثبت آنے کی متضاد اطلاعات

انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ بل میں ترمیم کی منظوری پہلے ہی دے چکی ہے اور ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ سینیٹ کے رواں اجلاس میں ترمیمی بل منظور کیا جائے۔

خیال رہے کہ صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 9 جنوری کو کچرے کے ڈھیر سے ایک 6 سالہ بچی زینب کی لاش ملی تھی، جسے زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا، اس واقعے نے پورے ملک کو جنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، جس کے بعد چیف جسٹس نے بھی از خود نوٹس لیا تھا۔

زینب کے قتل کے بعد حکومت کی جانب سے ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بنائی تھی، جس نے اس واقعے میں ملوث ہونے کے شبہے میں سیکڑوں افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے جبکہ ابتدائی طور پر ایک ملزم کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا، تاہم بعد ڈی این اے میچ نہ ہونے کے باعث اسے چھوڑ دیا گیا تھا۔

بعد ازاں گزشتہ روز پولیس نے زینب قتل کے مرکزی ملزم کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور ساتھ ہی اعلان کیا تھا کہ اس کا ڈی این اے بھی میچ ہوگیا ہے جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی بعد میں پریس کانفرنس کرکے زینب کے قاتل کو پکڑنے کا اعلان کیا تھا۔

سینیٹ کمیٹی کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس

دوسری جانب سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے کراچی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے لیا۔

سینیٹ کمیٹی نے کراچی میں ماورائے عدالت قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود کے قتل کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔

کمیٹی نے کہا کہ کراچی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملات بڑھتے جارہے ہیں، اس سلسلے میں کمیٹی 31 جنوری کو کراچی کا دورہ بھی کرے گی۔

یاد رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب قتل کیس: راؤ انوار کے خلاف ایف آئی آر درج

تاہم نقیب اللہ کے کزن نے پولیس کے دعویٰ کی ترتید کی تھی اور کہا تھا کہ وہ بے قصور تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر یہ معاملہ اٹھایا گیا، جس کے بعد بلاول بھٹو اور وزیر داخلہ نے نوٹس لیا تھا اور ایک کمیٹی تشکیل دے دی تھی جبکہ بعد ازاں آئی جی سندھ کے راؤ انوار کو معطل کردیا تھا۔

اس معطلی کے بعد راؤ انوار نے تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کیا تھا اور تحفظات کا اظہار کیا تھا، تاہم تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے کی گئی تفتیش میں یہ بات ثابت ہوئی تھی کہ نقیب اللہ کو جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا۔

دریں اثناء اس ماورائے عدالت قتل کے حوالے سے چیف جسٹس پاکستان نے بھی نوٹس لیا تھا، جس کی سماعت 27 جنوری کو کراچی رجسٹری میں ہوگی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں