وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ حکمراں اتحاد کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اگر وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب پر ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف درخواست سننے کے لیے سپریم کورٹ کا فل بینچ تشکیل نہیں دیا جاتا تو ہم مقدمے کی سماعت کا بائیکاٹ کریں گے اور حمزہ شہباز فریق نہیں بنیں گے۔

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ ویسے بھی ایسے جج صاحبان جو خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خلاف مانیٹرنگ جج کی ذمہ داریاں بھی نبھاتے رہے ہیں، اور ان بینچز میں بھی شامل رہے ہیں جن بینچز سے نہ صرف نواز شریف کو سزا دی گئی بلکہ پاناما کا فیصلہ دیا گیا اور نواز شریف کو پارٹی کی صدارت سے ہٹایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کے فیصلے سے متعلق 99 فیصد قانونی برادری کی رائے ہے کہ یہ آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے، اس میں ووٹ ڈالنے اور اس کو شمار نہ کرنے کی بات کی گئی ہے جبکہ آئین میں پوری اسکیم موجود ہے جس میں ووٹ ڈالنے، اس کو شمار ہونے، مسترد ہونے، ڈیکلریشن ہونے، الیکشن کمیشن کے فیصلہ کرنے اور سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کی پوری اسکیم درج ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی اب بتائے پیسہ کہاں چلا ہے، رانا ثنا اللہ

رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ اس کے ایک حصے کو غیر فعال کر دیا گیا ہے کہ ووٹ کو شمار ہی نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ رائے صرف قانونی برادری کی نہیں ہے، یہ رائے فاضل بینچ کے دو معزز جج صاحبان کی بھی ہے، اس حوالے سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نظرثانی درخواست پر کل کسی بھی وقت سماعت ہوسکتی ہے، اگر فیصلہ خلاف آتا ہے کہ یہ آئین کو دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے تو پھر حمزہ شہباز کی وہی پوزیشن بحال ہوجائے گی جو انہوں نے 197 ووٹ حاصل کرکے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اس لیے ہماری استدعا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے سے متعلق جو کیسز ہیں ان سب کو اکٹھے سنا جائے، جو اراکین صوبائی اسمبلی ڈی سیٹ ہوئے ہیں، ان کی اپیلیں بھی سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے ان 25 منحرف اراکین اسمبلی کو اس بنیاد پر ڈی سیٹ کیا کہ ان کے خلاف پارٹی کے سربراہ کی ڈیکلریشن ہے، پارٹی سربراہ نے ان کو ہدایات دیں، اس پر ان اراکین نے عمل نہیں کیا لہٰذا وہ ڈی سیٹ ہوئے۔

رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ اسی بنیاد پر اب بھی پارٹی سربراہ کی ہدایت کی خلاف ورزی کی وجہ سے اراکین کا ووٹ شمار نہیں کیا گیا، اگر 25 اراکین کی اپیلوں پر یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ وہاں پر بھی پارلیمانی پارٹی کی ہدایت نہیں تھی تو پھر کیا صورت بنے گی۔

مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا کیس: سپریم کورٹ نے فل کورٹ کی تشکیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا

انہوں نے کہا کہ ان پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے ہماری یہ استدعا ہے کہ فل کورٹ تشکیل دیں، اس سے عدالت عظمیٰ کے وقار میں اضافہ ہوگا اور پورے قوم کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے 2015 میں 8 ججز کا فیصلہ ہے، اس میں بھی پارٹی سربراہ کے حوالے سے فیصلہ کیا گیا تھا، یہ ساری چیزیں مل کر اس بات کا تقاضہ کرتی ہیں کہ فل بینچ بننا چاہیے، فل کورٹ بننے سے سارے تنازعات ختم ہو سکتے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ حکمراں اتحاد کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اگر فل بینچ تشکیل نہیں دیا جاتا تو ہم مقدمے کی سماعت کا بائیکاٹ کریں گے اور حمزہ شہباز فریق نہیں بنیں گے، انہوں نے کہا کہ یہ دھمکی نہیں ہے، اگر یہ پیچیدگیاں اسی طرح برقرار رہتی ہیں تو کیا عدالت عظمیٰ کی توقیر میں اضافہ ہوگا یا کمی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اس صورتحال پر میڈیا، سوشل میڈیا پر تبادلہ خیال کیا جائے گا اس سے جو صورتحال پیدا ہوگی ہم اس سے بچنا چاہتے ہیں۔

راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے کیسز سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کا کیس فل کورٹ نے ہی سنا تھا، وہ مقدمہ آرمی ایکٹ میں ترامیم سے متعلق تھا، اس فیصلے کو جسٹس عظمت سعید نے لکھا تھا جبکہ 8 ججوں نے ان سے اتفاق کیا تھا، اس میں موجودہ چیف جسٹس بھی شامل تھے، انہوں نے واضح طور پر لکھا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد 63 اے کی جو موجودہ شکل ہے، پارلیمانی پارٹی سے لے کر پارٹی سربراہ کو دے دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ کا فل کورٹ سماعت کرے، وفاقی وزیر قانون

ان کا کہنا تھا کہ ایک اور پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ ہے کہ جب میاں نواز شریف کو سزا سنا دی گئی تھی، اس کے خلاف ذوالفقار بھٹہ صاحب نے پٹیشن فائل کی تھی کہ سیاسی جماعتوں کے ایکٹ کو تبدیل ہونا چاہیے کیونکہ یہ ترمیم نواز شریف کو فائدہ دینے کے لیے دی گئی ہے، پانچ رکنی جج نے فیصلے میں کہا تھا کہ پارٹی میں سب سے مضبوط آواز، رتبہ اور ستون پارٹی سربراہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ پارٹی سربراہ ہدایات دیتا ہے کہ ووٹ کیسے ڈالنا ہے، وہ ٹکٹ دیتا ہے، وہ رکنیت سے نکال سکتا ہے، 63 اے کے تحت وہ فارغ کرسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں