اسلام آباد: اینکر جمیل فاروقی کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

اپ ڈیٹ 23 اگست 2022
پولیس کی جانب سے جمیل فاروقی کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی—تصویر: اسکرین شاٹ سوشل میڈیا
پولیس کی جانب سے جمیل فاروقی کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی—تصویر: اسکرین شاٹ سوشل میڈیا

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے یوٹیوبر جمیل فاروقی کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

ڈیوٹی جج جوڈیشل مجسٹریٹ میاں اظہر ندیم نے ایک صفحے پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ یوٹیوبر جمیل فاروقی کو اسلام آباد پولیس کے خلاف وی لاگ کرنے پر گرفتار کیاگیا۔

انہوں نے کہا کہ جمیل فاروقی نے شہبازگل پر ٹارچر کا الزام اسلام آباد پولیس پر لگایا۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ اسلام آباد پولیس کی جانب سے 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی اور پولیس ان کا موبائل اور دیگر ڈیوائسز برآمد کرنا چاہتی ہے۔

جج نے کہا کہ ملزم کے وکیل نے جسمانی ریمانڈ کی پولیس کی استدعا کی مخالفت کی اور کہا کہ یوٹیوبر نے اپنے ذرائع سے خبر دی۔

تحریری فیصلہ میں کہا گیا کہ تفتیش کے لیے موبائل فون اور دیگر ڈیوائسز کی برآمدگی ضروری ہے، اس لیے ملزم کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا جاتا ہے۔

عدالت نے کہا کہ ملزم کو 25 اگست کو میڈیکل رپورٹ کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جائے۔

اس سے قبل اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے بول ٹی وی کے اینکر اور یوٹیوبر جمیل فاروقی کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کے لیے پولیس کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

جمیل فاروقی کو ایک روز قبل ہی اسلام آباد پولیس پر پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کے ساتھ جسمانی اور جنسی بدسلوکی کا 'جھوٹا الزام' لگانے پر کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔

اس کے بعد کراچی کے ایک جج نے جمیل فاروقی کو دارالحکومت منتقل کرنے کے لیے 3 روزہ عبوری ریمانڈ منظور کرنے کے بعد اسلام آباد پولیس کی تحویل میں دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: یوٹیوبر جمیل فاروقی 3 روزہ راہداری ریمانڈ پر اسلام آباد پولیس کے حوالے

جب انہیں دارالحکومت لے جایا جارہا تھا تو یوٹیوبر نے دعویٰ کیا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، برہنہ کیا گیا اور 12 گھنٹے سے زائد وقت تک نامعلوم مقام پر رکھا گیا۔

جمیل فاروقی کو آج سخت سیکیورٹی میں جوڈیشل مجسٹریٹ میاں اظہر ندیم کے سامنے عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ صحافیوں کو کمرہ عدالت میں جانے سے روک دیا گیا۔

سماعت کے دوران پولیس کی جانب سے جمیل فاروقی کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔

دوسری جانب ان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل نے گرفتاری کے بعد تشدد کیے جانے کی بات کی تھی اور پولیس صرف ان پر مزید تشدد کرنے کے لیے ان کا جسمانی ریمانڈ مانگ رہی ہے۔

مزید پڑھیں: صحافی عمران ریاض خان 'بغاوت' کے مقدمے میں گرفتار

وکیل نے یہ بھی کہا کہ 'انہوں نے یوٹیوب چینل پر ایک پروگرام میں صرف شہباز گل کے دعووں کے بارے میں اپنے انداز میں بات کی تھی۔‘

انہوں نے سوال کیا کہ کیا پولیس معلومات یا شواہد کو 'دریافت' کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور انہیں میرے مؤکل کا جسمانی ریمانڈ کیوں درکار ہے، وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے مؤکل کو کیس سے بری کیا جائے۔

جمیل فاروقی نے بھی عدالت کے سامنے کہا کہ گرفتاری کے وقت ان کی کار، پرس اور دیگر سامان 'چھین لیا گیا' ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ سندھ اور اسلام آباد پولیس دونوں نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔

عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔

جمیل فاروقی کے خلاف مقدمہ

اینکر پرسن کے الزامات پی ٹی آئی کے اس دعوے کا اعادہ ہیں کہ شہباز گل کو غداری کے مقدمے میں تحقیقات کے دوران تفتیش کاروں کی جانب سے 'جنسی زیادتی' کا نشانہ بنایا گیا اور ان پر 'ذہنی اور جسمانی تشدد' کیا گیا۔

جمیل فاروقی کے خلاف اتوار کو رمنا پولیس اسٹیشن میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 499 (ہتک عزت)، 500 (ہتک عزت کی سزا)، 501 (ہتک آمیز چھپائی یا کنندہ کاری) اور 186 (سرکاری ملازمین کو عوامی فرائض کی انجام دہی سے روکنے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

شکایت کنندہ ایک مجسٹریٹ ہیں، جنہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے فون پر مختلف گروپس میں گردش کرتی ایک ویڈیو دیکھی تھی جس میں جمیل فاروقی نے اپنے یوٹیوب چینل پر ایک وی لاگ میں اسلام آباد پولیس کے پی ٹی آئی رہنما پر مبینہ تشدد کی تصویری تفصیلات شیئر کی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: صحافی عمران ریاض خان کی لاہور میں درج مقدمے میں بھی گرفتاری

شکایت میں کہا گیا کہ صحافی نے جھوٹے الزامات لگا کر پولیس کو بدنام کرنے کی کوشش کی، جو تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ صحافی نے پولیس کی توجہ ہٹانے، انتشار پھیلانے اور عوام کو اہلکاروں کے خلاف اکسانے کی کوشش کی۔

دوسری جانب جمیل فاروقی نے اسلام آباد پولیس پر تشدد کا الزام لگایا۔

پی ٹی آئی کے آفیشل ٹویٹر پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا گیا کہ بظاہر پریشان اینکر کو ہتھکڑیاں لگی ہوئی ہیں، جن کے ساتھ اسلام آباد پولیس کے اہلکار بھی کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر موجود ہیں۔

کلپ میں ملزم نے الزام لگایا کہ انہیں برہنہ کیا گیا اور اس کے بعد اسے مارا پیٹا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ کے حکم پر، صرف اس لیے کہ میں سچ بول رہا ہوں، انہوں نے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا، میرے کپڑے اتارے اور مجھے مارا۔

اینکر کا کہنا تھا کہ اسلام آباد پولیس نے اس وقت میرا راہداری ریمانڈ حاصل کیا ہے تاکہ مجھے کراچی سے اسلام آباد لے جایا جا سکے جبکہ میرے اہل خانہ اور چینل کو ابھی تک اس بارے میں کچھ علم نہیں۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی اور 12 گھنٹے تک نامعلوم مقام پر رکھا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں