’15 برس بیت گئے‘، شیرشاہ پُل حادثے کے ذمہ دار قانون کی گرفت سے آزاد

اپ ڈیٹ 01 ستمبر 2022
سپریم کورٹ کی ہدایت پر درج قتل کے مقدمے میں نامزد ملزمان کو 2012 میں سیشن عدالت نے بری کر دیا تھا — فوٹو: فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار
سپریم کورٹ کی ہدایت پر درج قتل کے مقدمے میں نامزد ملزمان کو 2012 میں سیشن عدالت نے بری کر دیا تھا — فوٹو: فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار

کراچی میں یکم ستمبر 2007 کو شیرشاہ پُل کے ایک بڑے حصے کے انہدام کو 15 برس گزر جانے کے باوجود پولیس، وزارت مواصلات اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) متعدد تحقیقات کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد کرنے اور واقعے میں جاں بحق ہونے والے 6 افراد کے لواحقین کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کی ہدایت پر 7 اپریل 2010 کو قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں ملزمان کو 2012 میں سیشن عدالت نے بری کر دیا تھا۔

ایف آئی اے کی جانب سے شیرشاہ پُل کے انہدام سے متعلق رواں سال اپریل میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے ایک سابق چیئرمین، ایک ٹیکسٹائل مل کے ڈائریکٹر اور 3 دیگر کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی، تاہم ایف آئی آر کے اندراج کے باوجود ایف آئی اے اب تک نامزد ملزمان میں سے کسی کے خلاف بھی کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔

ذرائع نے اس حوالے سے مقدمے کے اندراج اور پھر تحقیقات میں تاخیر کو ملک میں سیاسی پیش رفت سے جوڑا جس کے دوران حکومت اور مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں میں قیادت کی تبدیلی دیکھی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: شیرشاہ دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد 17 ہوگئی، پولیس تحقیقات کا آغاز

کیس سے واقف ایف آئی اے کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ نامزد ملزمان نے نہ تو تفتیش میں حصہ لیا اور نہ ہی گرفتاری سے قبل ضمانت کے لیے کسی عدالت سے رجوع کیا۔

سرکاری کاغذات ظاہر کرتے ہیں کہ اس 15 سال پرانے واقعے کے سلسلے میں ایک ایف آئی آر (15/2022) این ایچ اے کے سابق چیئرمین ریٹائرڈ میجر جنرل فرخ جاوید، سابق رکن این ایچ اے راجا نوشیروان، سابق پروجیکٹ ڈائریکٹر کراچی ناردرن بائی پاس فلائی اوور یوسف بارکزئی، ای سی آئی ایل کے خالد مرزا اور پراچہ ٹیکسٹائل مل کے نوید مرزا کے خلاف وزیر اعظم کے معائنہ کمیشن کے اس وقت کے چیئرمین کی شکایت پر درج کی گئی تھی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ مقدمہ کراچی میں درج کیا گیا تھا لیکن ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام نے 29 اپریل کو کیس کی تحقیقات ایجنسی کے اسلام آباد آفس منتقل کردی تھیں۔

سرکاری کاغذات میں کہا گیا ہے کہ انتہائی بااثر مشتبہ افراد نے مبینہ طور پر متعلقہ ماہرین کی جانب سے اس بروقت انتباہ کے باوجود ناقص فلائی اوور کی تعمیر کی اجازت دی کہ پل کو منہدم کرکے دوبارہ درست طریقے سے ڈیزائن کیا جانا چاہیے کیونکہ مستقل خرابیوں کو وقتی اقدامات سے حل نہیں کیا جاسکتا۔

مزید پڑھیں: کراچی: شیر شاہ پل پر ٹریفک حادثہ

ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ پُل کا ’ناقص ڈیزائن‘ ٹیکسٹائل ملز کی زمین کے تحفظ کے لیے بنایا گیا تھا۔

سرکاری کاغذات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مذکورہ مشتبہ افراد نے جان بوجھ کر دھوکا دہی اور مشترکہ مقاصد کے تحت مجرمانہ عزائم رکھتے ہوئے کراچی ناردرن بائی پاس (کے این بی پی) کے ڈیزائن میں بنیادی غلطی جاننے کے باوجود پراچہ ٹیکسٹائل مل کے تحفظ کے لیے اس کی زمین کے چھوٹے ٹکڑے پر دانستہ طور پر ناقص فلائی اوور تعمیر کیا۔

ایف آئی اے نے بتایا کہ ای سی آئی ایل پرائیویٹ لمیٹڈ نے ’ناقص‘ ڈیزائن تیار کیا اور این ایچ اے نے زمین کے ایک چھوٹے سے حصے پر پُل کی تعمیر پر اصرار کیا حالانکہ محفوظ پل کی تعمیر کے لیے مزید زمین درکار تھی، ناقص ڈیزائن، غلط ساخت اور مذکورہ ملزمان کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے پُل گر گیا۔

ایف آئی اے اس نتیجے پر پہنچی کہ ملزمان نے مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا اور این ایچ اے کو 42 کروڑ 70 لاکھ روپے سے زائد کا مالی نقصان پہنچایا جبکہ ای سی آئی ایل اور پراچہ ٹیکسٹائل مل کو فائدہ پہنچایا، ان کے اس اقدام پر پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 409 (پبلک سرونٹ کی جانب سے اعتماد کی مجرمانہ خلاف ورزی) اور دفعہ 109 (غیر قانونی کام کی حوصلہ افزائی) کے تحت جرائم کا کمیشن تشکیل دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: اپر کوہستان میں سیلاب کے باعث پُل بہہ گیا

واقعات کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پُل کا باقاعدہ افتتاح اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے 6 اگست 2007 کو کیا تھا جو کہ ایک ماہ کے اندر یعنی یکم ستمبر 2007 کو گر گیا۔

سپریم کورٹ نے 2010 میں اس واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا اور سندھ پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے اور واقعے کے وقت فوری طور پر مقدمہ درج نہ کرنے پر ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی تھی۔

بعدازاں سائٹ-بی پولیس نے عدالت عظمیٰ کے حکم پر 2 برس اور 7 ماہ کے وقفے کے بعد اپریل 2010 میں مقدمہ درج کیا، ایک حتمی چارج شیٹ پیش کی گئی اور اسی برس ملزمان کے خلاف الزامات عائد کیے گئے۔

تاہم اس وقت کے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن افتخار حسین تارڑ کی جانب سے ایک ضمنی چارج شیٹ جمع کرائی گئی جس میں چارج شیٹ کے کالم-2 میں تمام ملزمان کے نام نیلی سیاہی سے درج کیے گئے لہٰذا انہیں ٹرائل کے لیے نہیں بھیجا گیا اور اس طرح ملزمان کو 2012 میں عدالت نے بری کردیا۔

مزید پڑھیں: چارسدہ: سردریاب کے مقام پر پُل گرنے سے 1 شخص ہلاک

2015 میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ایک اپیل پر یہ معاملہ اٹھایا اور گہرے افسوس کے ساتھ مشاہدہ کیا کہ ’پل کے انہدام کو 7 برس اور عبوری حکم جاری ہونے کے تقریباً 4 سال گزر جانے کے باوجود اس عدالت میں کوئی ایسا قانونی عمل ریکارڈ پر نہیں لایا گیا جو اس عدالت کی ہدایت کے مطابق شروع کیا گیا ہو اور اس کے منطقی انجام تک پہنچا ہو۔‘

عدالت عظمیٰ نے کسی بھی جواب دہندہ یا دوسرے شخص کو پیشہ ورانہ نااہلی، مجرمانہ غفلت یا عوامی فرض کی خلاف ورزی کے الزامات سے بری نہیں کیا تھا لہٰذا 10 جون کو اس وقت کے چیئرمین پی ایم انسپیکشن کمیشن اسلام آباد ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل سیف الدین قریشی نے ایف آئی اے کے سامنے 2016 میں شیرشاہ پل گرنے کی انکوائری شروع کرنے کے لیے شکایت جمع کروائی تھی۔

ایف آئی اے کراچی کے کارپوریٹ کرائم سرکل نے واقعے کی مکمل انکوائری کرنے کے بعد 12 اپریل 2022 کو 5 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی، تاہم کیس کی تفتیش 29 اپریل کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دی گئی۔

این ای ڈی پروفیسرز کی انکوائری

اس وقت کے وزیراعظم کے حکم پر این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے سینئر پروفیسرز کی ٹیم نے دیگر ماہرین کے ہمراہ انکوائری کی۔

سول انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے اس وقت کے چیئرمین اور موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت نے ایف آئی اے کے تفتیش کاروں کو بتایا کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’پُل کے انہدام کی وجہ درحقیقت غلط ساخت اور اس کا ڈیزائن تھا‘۔

تاہم سرکاری کاغذات کے مطابق ناقص ڈیزائن کی وجہ سے انہدام کے باوجود این ایچ اے کی جانب سے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت پراچہ چوک باکس گرڈر پل کے گرنے کی بنیادی وجہ رہے گی کیونکہ این ایچ اے اس منصوبے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے میں شرمناک طور پر ناکام رہا۔

’تیسرے فریق کی رائے نہیں لی گئی اور پُل کا ایک حصہ گر گیا'

ایف آئی اے نے بتایا کہ شیرشاہ پل کی تعمیر کا کام سال 2003 میں شروع ہوا تھا اور 2006 میں پُل کے غیر معمولی نقائص دیکھنے میں آئے تھے اور کام روک دیا گیا تھا۔

ای سی آئی ایل ڈیزائننگ فرم نے کمپنی ڈائریکٹر خالد مرزا کے ساتھ سائٹ کا دورہ کیا، اس کے بعد این ایچ اے اسلام آباد کے جی ایم ڈیزائن عاصم امین اور کنسلٹنٹ اقبال الحق نے بھی سائٹ کا دورہ کیا۔

انہوں نے ای سی آئی ایل کی ڈیزائن انجینئر میڈم ماجدہ سے ملاقات کی جنہوں نے انہیں بتایا کہ 'ڈیزائن کیلکولیشن سے متعلق ریکارڈ کھو گیا ہے اور ان کے پاس دستیاب نہیں ہے‘۔

این ایچ اے کنسلٹنٹ نے ای سی آئی ایل کو مشورہ دیا کہ ’تدبیری اقدامات ممکنہ طور پر مسئلہ حل نہیں کریں گے‘۔

مزید پڑھیں: بلوچستان: اہم پل ٹوٹنے سے کوئٹہ کا ملک سے زمینی رابطہ منقطع

ماہرین نے پُل کو گرانے اور صحیح طریقے سے دوبارہ ڈیزائن کرنے کی تجویز پیش کی تھی کیونکہ مرمت اور بحالی کے اقدمات سے بھاری رقم ضائع ہونے کا اندیشہ تھا۔

تاہم ان انتباہات اور تجاویز کے باوجود این ایچ اے کے اس وقت کے چیئرمین میجر جنرل فرخ جاوید نے 26 اکتوبر 2006 کو کراچی میں ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی اور نیشنل لاجسٹک سیل کو فوری طور پر شیرشاہ پُل کی مرمت اور بحالی کا کام شروع کرنے کا حکم دیا۔

ایف آئی اے کے کاغذات میں کہا گیا ہے کہ اس اجلاس کے دوران عاصم امین نے بریگیڈیئر ڈاکٹر جمیل کی خدمات حاصل کرنے کی تجویز پیش کی جو انجینئر ان چیف برانچ جی ایچ کیو میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔

ایف آئی اے نے کہا کہ ملزم راجا نوشیروان نے اس تجویز کو منظور کرنے کے بجائے نوٹ شیٹ پر ’نو فردر ایکشن‘ (مزید کارروائی نہ کی جائے) لکھا۔

ایف آئی اے نے اپنی انکوائری میں افسوس کا اظہار کیا کہ 'بدقسمتی سے تیسرے فریق کی رائے نہیں لی گئی اور بالآخر شیرشاہ پل کا ایک حصہ گر گیا'۔

تبصرے (0) بند ہیں