عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے خبردار کیا ہے کہ بلند افراط زر اور عالمی سطح پر مشکل اقتصادی حالات کے اثرات پاکستان کی معیشت پر برقرار رہیں گے، جس سے ملک کی شرح تبادلہ اور بیرونی استحکام پر دباؤ ہوگا۔

آئی ایم ایف نے گزشتہ روز جاری ملک کی رپورٹ میں یہ تجزیہ شامل کیا ہے۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے اپنی رپورٹ میں اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ رواں مالی سال میں ایوریج کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) مہنگائی 20 فیصد تک بڑھنے کا امکان تھا جبکہ توانائی کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کے باعث بلند افراط زر جاری رہنے کا امکان ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی معیشت کے آؤٹ لُک کو خطرات اور پروگرام پر عمل درآمد کا جھکاؤ بدستور بلند اور تنزلی کی جانب جھکاؤ پر رہے گا، جس کی وجہ سے آئی ایم ایف نے اس سے اندرونی اور بیرونی ماحول کے لیے انتہائی پیچیدہ صورت حال کو قرار دیا ہے۔

آئی ایم ایف نے مزید کہا ہے کہ یوکرین میں جاری جنگ کی وجہ سے خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں انتہائی اور عالمی اقتصادی حالات کے باعث پاکستان کی معیشت پر بوجھ برقرار رہے گا اور شرح تبادلہ اور بیرونی استحکام پر دباؤ پڑے گا۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف سے ایک ارب 16 کروڑ ڈالر کی قسط موصول ہوگئی، اسٹیٹ بینک

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2022 کی طرح پالیسی میں لچک بھی ایک خطرہ بنی ہوئی ہے جہاں کمزور صلاحیت اور طاقت ور ذاتی مفادات کے ساتھ ساتھ انتخابات کے انعقاد کے وقت کی غیریقینی کی وجہ سے پیچیدہ سیاسی ماحول سے پیچیدگی ہے۔

آئی ایم ایف کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کمزور سیاسی اتحاد اور پارلیمنٹ میں اس کی معمولی اکثریت کے پیش نظر سیاسی اور سماجی دباؤ بھی بلند سطح پر رہنے کا امکان ہے جو اصلاحات اور پالیسی پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قرض دہندہ ادارے کی طرف سے بلند شرح سود، توقع سے زیادہ ترقی کی سست روی، شرح مبادلہ پر دباؤ، پالیسی کی تبدیلی، درمیانی مدت کی نمو، سرکاری اداروں سے متعلقہ ہنگامی ذمہ داریاں اور موسمیاتی تبدیلی کو خطرات قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ خوراک اور ایندھن کی بلند قیمتوں کی وجہ سے احتجاج، مظاہرے اور عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں مالیاتی اور بیرونی استحکام اور قرض کی پائیداری کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

سخت زری پالیسی

آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو سخت گیر پالیسی جاری رکھنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک سخت زری پالیسی برقرار رکھنے اور مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ڈیٹا پر مبنی فیصلے کرنے پر اتفاق کرچکا ہے۔

عالمی مالیاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک اقتصادی سہولیات پر دی گئی سبسڈیز کم کرنے اور ایسی اسکیموں میں خود کی مداخلت مرحلہ وار ختم کرنے پر بھی اتفاق کرچکا ہے، جس کے لیے رواں سال کے آخر تک منتقلی کا منصوبہ تیار کرے گا۔

رپورٹ میں بتایا کہ حکام نے دیگر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے ساتھ ابتدائی منصوبے پر کام آگے بڑھایا ہے اور ان اسکیموں کی لاگت مارکیٹ کے نرخوں کے قریب لانے سے ان کی مانگ میں کمی آئے گی اور اس طرح ایک مناسب ترقیاتی مالیاتی ادارے کو منتقل ہونے والی سرگرمی کے ساتھ مرحلہ وار خاتمے میں آسانی ہوگی۔

آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے بینک کی لیکویڈیٹی کا انتظام اپنی زری پالیسی کے اہداف کے تحت چلانے کے لیے پرعزم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹیٹ بینک کے زر مبادلہ کے ذخائر 2 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے

شرح تبادلہ

قرض دہندہ ادارے نے متعلقہ حکام سے کہا ہے کہ مارکیٹ کو شرح تبادلہ کا تعین کرنے کی اجازت برقرار رکھیں اور کسی بھی رجحان کی تحریک کو دبانے سے گریز کریں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مارکیٹ کا تعین کردہ شرح تبادلہ اثرات جذب کرنے کے لیے بدستور مؤثر رہے گا اور زر مبادلہ کے ذخائر بڑھانے اور بیرونی عدم توازن کم کرنے کے لیے ضروری ہے۔

آئی ایم ایف نے بتایا کہ بیرونی دباؤ حل کرنے کے لیے شرح تبادلہ میں لچک کے لیے اہم کردار کی اجازت دینے سے تحفظ میں مدد گار ہوگی اور پروگرام کے اہداف کے مطابق ذخائر کے خلاف کو پورا کرنے میں بہتری آئے گی۔

آؤٹ لک

آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ حقیقی معاشی شرح نمو گزشتہ دو برس سے رجحان سے زیادہ رہی اور مالی سال2023 میں کم ہو کر 3.5 فیصد تک جانے کا امکان تھا جو بتدریج 5 فیصد کی طرف واپس آ گئی ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ توانائی کی قیمتیں صارفین پر منتقل کرنے سے داخلی طلب واضح طور پر کم ہو جائے گی اور سرگرمی محدود ہوگئی تھی جبکہ زیادہ مہنگائی کی وجہ سے قوت خرید کم ہوجائے گی۔

آئی ایم ایف کی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ سخت مالیاتی اور اقتصادی پالیسیوں کے بحال ہونے کے بعد آئندہ مالی سال مہنگائی میں کمی آئے گی، اسٹیٹ بینک درمیانی مدت کے افراط زر کی شرح 6.5 فیصد تک کم ہونے کے ساتھ بتدریج 5 سے 7 فیصد افراط زر کے ہدف تک پہنچنے کی توقع کر رہا ہے۔

آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مالی سال 2023 میں جی ڈی پی کے 2.5 فیصد سے کم ہوگا جو گزشتہ مالی سال کی جی ڈی پی کی 4.7 فیصد سے کم ہوگا اور اس سے درآمدات کے لیے ذخائر کے حجم میں 2.3 ماہ کا اضافہ ہوگا جو اس وقت 1.7 ماہ ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ مالی سال 2023 کے آخر تک قرض جی ڈی پی کے 72 فیصد تک گرجائیں گے، اس کی وجہ سخت مالی پالیسی ہے۔ سخت مالیاتی پالیسی اور افراط زر کی وجہ سے روپے کے قرض کی قدر میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں