چھوٹے کاشت کاروں کو مفت سولر بجلی دیں گے، وزیر اعلیٰ پنجاب

اپ ڈیٹ 11 ستمبر 2022
وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ عمران خان کے ٹیلی تھون سے ڈھائی ارب روپے جمع ہوئے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ عمران خان کے ٹیلی تھون سے ڈھائی ارب روپے جمع ہوئے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے سیلاب متاثرین کو ملنے والی امداد شفاف طریقے سے تقسیم کرنے کا عزم کرتے ہوئے کہا ہے کہ زمینداروں اور چھوٹے کاشت کاروں کو مفت سولر بجلی دیں گے۔

لاہور پریس کلب میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پرویز الہٰی نے پنجاب میں صحافیوں کے لیے سہولیات فراہم کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ضلعی سطح پر پریس کلب بنائیں گے۔

مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو 'آفت زدہ' قرار دے دیا

ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے علاج کے لیے بھی سہولیات دیں گے، جو بھی پریس کلب کے رکن ہیں، ان کے لیے آپریشن مفت کریں گے، عمران خان کی صحت کارڈ اسکیم بھی صحیح جارہی ہے اور فوری طور پر علاج شروع ہوگا اور ہسپتالوں کو لکھ کر دیں گے۔

سیلاب متاثرین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے جو ٹیلی تھون کی تھی اس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں اور ڈھائی ارب روپے جمع ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے طے کیا ہے کہ جو ایپ بنائی گئی ہے اس میں بے گھر اور غریبوں کو 40 فیصد رعایت ملے گی، ہر زمیندار اور چھوٹے کاشت کار کو سولر پینل دینے کی ہدایت کی ہے کیونکہ شہباز شریف اور مفتاح اسمٰعیل کی کوششوں سے یہاں بجلی ٹھیک تو ہونی نہیں، اس لیے ان لوگوں کو سولر پینل مفت دیں گے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ امداد کی تقسیم کا عمل شفاف ہونا چاہیے، صرف باہر سے ڈالر آئیں تو شفافیت پر توجہ نہیں دینی چاہیے بلکہ مقامی سطح پر خیال رکھنا چاہیے۔

’شہباز شریف جیسے مانگتے ہیں کوئی نہیں مانگ سکتا‘

وزیر اعظم شہباز شریف پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے کہا کہ فکر نہ کریں ایک ایک پیسہ صحیح لگے گا تو کیا اس کا مطلب ہے کہ تم پیسے کھاتے رہے ہو۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز الہٰی کی عمران خان سے ملاقات، ’پنجاب حکومت ہر حال میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ اصل طریقے سے شہباز شریف جیسے مانگتے ہیں کوئی نہیں مانگ سکتا اور جو کچھ تقسیم ہوگا اس کے حوالے سے پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہاں مقامی انتظامیہ ہوگی، پھر حکومتی اراکین قومی اسمبلی اور ہمارے اراکین صوبائی اسمبلی بھی موجود ہوں گے، جو ایک دوسرے پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں