پارلیمانی کمیٹی کا مہنگائی، ڈالر کی قیمت میں اضافے کا نوٹس

17 ستمبر 2022
وزیر نے کہا کہ ملک گیر تباہی کے بعد غیر معمولی سیلاب نے ملک کے مالی وسائل کو دھچکا پہنچایا—فائل فوٹو: وائٹ اسٹار
وزیر نے کہا کہ ملک گیر تباہی کے بعد غیر معمولی سیلاب نے ملک کے مالی وسائل کو دھچکا پہنچایا—فائل فوٹو: وائٹ اسٹار

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے ریکارڈ مہنگائی اور روپے کی قدر میں گراوٹ کا نوٹس لیتے ہوئے مرکزی بینک کو اس بڑھتے ہوئے رجحان پر کڑی نظر رکھنے کی ہدایت کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رکن قومی اسمبلی قیصر احمد شیخ کی سربراہی میں کمیٹی نے مہنگائی اور ڈالر کی تیزی سے قدر میں اضافے کے اثرات پر تبادلہ خیال کیا اور وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے نمائندوں نے بریفنگ دی۔

کمیٹی کا خیال تھا کہ اسٹیٹ بینک کو اپنا اختیار استعمال کرنا چاہیے اور صورتحال کو قابو میں لانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں مہنگائی تاریخ کی نئی بلند ترین سطح 44.58 فیصد پر پہنچ گئی

قیصر شیخ نے کہا کہ شرح سود میں اضافہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا حل نہیں ہے، انہوں نے برآمدات کے ذریعے ڈالر کی آمد کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔

تاہم اسٹیٹ بینک کے نمائندے نے کمیٹی کو بتایا کہ مہنگائی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے اس کی بنیادی وجوہات کو دور کرنا ہوگا۔

اس بات کو نوٹ کرتے ہوئے کہ عالمی سطح پر اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور قدرتی آفات نے سپلائی چین کو متاثر کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مرکزی بینک نے شرح سود میں اضافہ کیا، لگژری اشیا کی درآمد کو محدود کیا اور برآمد کنندگان اور درآمد کنندگان کو اس صورتحال کو کم کرنے کے لیے سہولت فراہم کی ہے۔

مزید پڑھیں: ہفتہ وار مہنگائی نے تمام ریکارڈ توڑ دیے، 42.3 فیصد تک پہنچ گئی

ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت پر انہوں نے کہا کہ اس کا تعین اسٹیٹ بینک نے نہیں کیا بلکہ شرح تبادلہ کا تعین بین الاقوامی کرنسی مارکیٹوں میں طلب اور رسد سے کیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مرکزی بینک نے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت کو جانچنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں امریکی کرنسی کے اخراج اور آمد میں نمایاں فرق ہے۔

وزیر مملکت عائشہ غوث پاشا نے کمیٹی کے ارکان کو عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ حکومت کے بیل آؤٹ پیکج کے معاہدے پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ قرض دہندہ ادارے نے قرض پروگرام کو گزشتہ حکومت کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کے بعد معطل کردیا تھا۔

وزیر مملکت نے اصرار کیا کہ موجودہ حکومت نے قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے معاہدے پر مکمل مذاکرات کیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ہفتہ وار مہنگائی تاریخ کی نئی بُلند ترین سطح 45.5 فیصد پر پہنچ گئی

اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہ معیشت کو فوری اصلاحات کے ذریعے ترقی نہیں دی جا سکتی، انہوں نے ملکی معیشت کو متحرک اور ترقی پر مبنی بنانے کے لیے ساختی تبدیلیوں اور طویل المدتی پالیسیوں پر زور دیا، جس میں گردشی قرض کی مینجمنٹ، انکم ٹیکس میں اصلاحات اور سرکاری اداروں کے حصص کی تقسیم جیسے اہم اقدامات شامل ہیں۔

وزیر نے کہا کہ ملک گیر تباہی کے بعد غیر معمولی سیلاب نے ملک کے مالی وسائل کو دھچکا پہنچایا اور سیلاب سے متاثرہ شہریوں کی مدد کے لیے فنڈز کو منتقل کرنا پڑا۔

دوسری جانب نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی سیلاب کی امداد اور بحالی کی کوششوں پر قائمہ کمیٹی نے نقصانات کے تخمینے کے سروے کو جلد از جلد مکمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ حکومت سیلاب متاثرین کے لیے مالی امداد کے پیکج کا اعلان کر سکے۔

این ڈی ایم اے کے ایک نمائندے نے کمیٹی کو طوفانی بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہی اور این ڈی ایم اے، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز اور سماجی شعبے کی تنظیموں کے ذریعے امدادی کارروائیوں کے بارے میں بتایا۔

تبصرے (0) بند ہیں