پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس نامعلوم وجوہات پر مزید ایک ماہ کیلئے ملتوی

17 ستمبر 2022
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس اب 20 اکتوبر کو ہوگا—قومی اسمبلی/فیس بک
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس اب 20 اکتوبر کو ہوگا—قومی اسمبلی/فیس بک

اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا پارلیمنٹ سے لازمی خطاب مسلسل تعطل کا شکار ہونے کے باوجود 22 ستمبر کو ہونے والا مشترکہ اجلاس تیسری بار مزید ایک ماہ کے لیے کوئی وجہ بتائے بغیر ملتوی کر دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے باضابطہ اعلان میں بتایا گیا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس اب 20 اکتوبر کو ہوگا۔

اس حوالے سے باضابطہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ اسپیکر نے پارلیمنٹ (جوائنٹ سٹِنگز) رولز 1973 کے قاعدہ نمبر 4 کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے مشترکہ اجلاس مؤخر کیا۔

پارلیمنٹ کا آخری مشترکہ اجلاس 9 جون کو ہوا تھا جس میں حکومت نے متنازع انتخابی اصلاحات اور احتسابی قوانین کامیابی سے منظور کروائے تھے جنہیں اس سے قبل صدر عارف علوی نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے باوجود منظوری دینے سے انکار کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کل ہونے والا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ملتوی

ایوان بالا اور ایوان زیریں سے منظوری کے بعد بل صدر کی منظوری کے لیے بھیجے گئے تھے تاہم صدر عارف علوی نے انہیں دوبارہ غور کے لیے پارلیمنٹ کو بھیج دیا تھا۔

یہ بل دوبارہ صدر کو پیش کیے گئے لیکن انہوں نے ان پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا، اس کے بعد یہ بل آئین کے آرٹیکل 75 کے مطابق 10 روز بعد پارلیمنٹ کا ایکٹ بن گئے۔

بعدازاں اسپیکر نے مشترکہ اجلاس 20 جولائی تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا کیونکہ حکومت مشترکہ اجلاس میں کچھ مزید بل منظور کروانے کا ارادہ رکھتی تھی، تاہم 18 جولائی کو اسپیکر نے کوئی وجہ بتائے بغیر مشترکہ اجلاس 22 اگست تک ملتوی کردیا۔

25 جولائی 2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی موجودہ قومی اسمبلی اپنی 4 سالہ مدت پوری کر کے اپنے آخری پارلیمانی سال میں داخل ہو چکی ہے اور صدر کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب لازمی ہے جوکہ 14 اگست کو قومی اسمبلی کا آخری پارلیمانی سال شروع ہونے کے ساتھ ہی لازم ہو چکا ہے اور تاحال تعطل کا شکار ہے۔

مزید پڑھیں: پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظور، اپوزیشن کا واک آؤٹ

وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران صدر عارف علوی متعدد صدارتی آرڈیننس جاری کرکے پارلیمنٹ کو کمزور کرنے پر ماضی کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنے جو کہ اب حکومت میں ہیں۔

جب سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارکان کے تقرر اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق صدر عارف علوی کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا تو اپوزیشن نے ان کے مواخذے کے لیے قرارداد پیش کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔

رواں سال اپریل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عہدے سے ہٹانے کے بعد وزیر اعظم منتخب ہونے والے شہباز شریف سے صدر عارف علوی نے حلف لینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

صدر عارف علوی اس وقت ایک بار پھر تنقید کی زد میں آئے جب انہوں نے انتخابی اصلاحات اور نیب ترمیمی بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کے باوجود ان کی منظوری دینے سے انکار کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ملتوی ہونے میں بہتری کا پہلو ہے، شیخ رشید

پی ٹی آئی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ڈاکٹر عارف علوی ستمبر 2018 سے اب تک بطور صدر 4 بار پارلیمنٹ سے خطاب کر چکے ہیں جس میں انہوں نے ہمیشہ پی ٹی آئی کی تعریف کی۔

پارلیمانی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بار صدر کو مختلف صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ انہیں 2 مختلف حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ پیش کرنا ہوگا۔

سابق حکمران پی ٹی آئی کی 8 ماہ کی کارکردگی کا جائزہ پیش کرنے کے علاوہ صدر کو اپنے سیاسی حریفوں پر مشتمل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت کے 5 ماہ کے دورِ حکومت کا بھی تجزیہ پیش کرنا ہوگا۔

گزشتہ سال 13 ستمبر کو ڈاکٹر عارف علوی نے اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کے شدید احتجاج کے دوران پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا تھا۔

صدر نے پی ٹی آئی حکومت کی تعریف اور اپوزیشن کے احتجاج اور چیخ و پکار کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’چیخیں ضرور لیکن اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ ملک صنعتی ترقی کی راہ پر گامزن ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں