موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے امریکا اور چین اپنے اختلافات ایک طرف رکھیں، بلاول بھٹو

اپ ڈیٹ 29 ستمبر 2022
بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر امریکا اور چین مل کر کردار ادا نہیں کریں گے تو ہم موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے — فوٹو : اسکرین شاٹ
بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر امریکا اور چین مل کر کردار ادا نہیں کریں گے تو ہم موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے — فوٹو : اسکرین شاٹ

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے امریکا اور چین سے اپنے اختلافات ایک طرف رکھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ چاہیں گے کہ دونوں ممالک کے درمیان پاکستان کشیدگی کو بڑھاوا دینے یا ’جیو پولیٹیکل فٹ بال‘ بننے کے بجائے پُل کا کردار ادا کرے۔

وزیر خارجہ نے یہ ریمارکس امریکا اور چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور خاص طور پر سیلاب کی تباہ کاریوں کے تناظر میں دونوں ممالک کی جانب سے وعدوں اور امداد کے حوالے سے امریکی میگزین ’فارن پالیسی‘ کے ایڈیٹر ان چیف روی اگروال سے گفتگو کرتے ہوئے دیے۔

روی اگروال کی جانب سے سوال کیا گیا کہ رواں سال کے تباہ کن سیلاب کے بعد چین، پاکستان کی مدد کے لیے آگے نہیں آیا اور معاشی بحران کا شکار سری لنکا بھی چین سے زیادہ مدد حاصل نہ کرسکا۔

جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ ’سری لنکا یا پاکستان کے ساتھ چین کیا معاملات کرتا ہے، یہ مکمل طور پر چین کا اپنا فیصلہ ہے، بالکل اسی طرح جیسے اس صورتحال میں امریکا کے ان دونوں ممالک کے ساتھ معاملات، 100 فیصد امریکا کے اپنے فیصلے پر منحصر ہیں‘۔

بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ ’چین اور امریکا کے درمیان مسابقت کا سبب بننے کے بجائے میں چاہوں گا کہ پاکستان وہ کردار ادا کرتا رہے جو ہم ماضی میں کرتے رہے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان نے ہمیشہ چین اور امریکا کے درمیان پُل کا کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے، خاص طور پر ایسے وقت میں ہم کسی بھی کشیدگی کو بڑھانا یا جیو پولیٹیکل فٹ بال بننے میں کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہتے جب ملک سیلاب میں گھرا ہوا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جغرافیائی سیاسی تقسیم کے اس دور میں، میں موسمیاتی تبدیلی کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے ان دونوں عالمی طاقتوں کو متحد کرکے ایک پُل کا کردار ادا کرنا چاہتا ہوں‘۔

وزیر خارجہ نے امید ظاہر کی کہ ’امریکا اور چین، دونوں ممالک کے دوست کے طور پر شاید پاکستان کی منفرد حیثیت اس معاملے میں باہمی تعاون کا سبب بن سکتی ہے‘۔

مزید پڑھیں: کسی کو پاک ۔ چین تعلقات خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، بلاول بھٹو

بلاول بھٹو کے یہ ریمارکس ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب چین اور امریکا پاکستان کو قرضوں اور سیلاب سے نجات کے لیے ملنے والی امداد کے حوالے سے لفظی جنگ میں مصروف ہیں۔

26 ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس مشکل وقت میں پاکستان کے لیے امریکا کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ چین سے قرضوں میں ریلیف حاصل کرے۔

ان ریمارکس پر چین کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا، چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے انٹونی بلنکن کے اس بیان کو امریکا کی جانب سے پاک-چین تعلقات کے خلاف بلاجواز تنقید قرار دیا اور امریکا پر زور دیا کہ وہ پاکستان کے عوام کے لیے کچھ بامعنی اور فائدہ مند کردار ادا کرے۔

وزیر خارجہ نے دونوں عالمی طاقتوں پر زور دیا کہ وہ اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھیں اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی وزیر خارجہ کا پاکستان پر چین سے قرضوں میں ریلیف لینے کیلئے زور

’فارن پالیسی‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے زور دیا کہ ’ہر چیز امریکا اور چین کے جیو پولیٹیکل تنازع سے جڑی ہوئی نہیں ہے اور مجھے یہ مضحکہ خیز لگتا ہے کہ ہم اس وقت اپنے ملک کی بقا اور تباہ کن سیلاب سے نمٹنے کی صلاحیت کے بارے میں بات کرنے کے بجائے یہ گفتگو کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اگر امریکا اور چین مل کر کردار ادا نہیں کریں گے تو ہم موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے‘۔

وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ ’چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی گہری جڑیں ہیں، پاکستان چین کے ساتھ اس وقت دوستی کا خواہاں تھا جب کوئی اور نہیں کرنا چاہتا تھا، اب ہر کوئی چین کے ساتھ دوستی کرنا چاہتا ہے‘۔

'سیلاب سے نمٹنے کیلئے امداد لائق تحسین لیکن آٹے میں نمک کے برابر ہے'

بلاول بھٹو نے تباہ کن سیلاب سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو اب تک ملنے والی غیر ملکی امداد کے بارے میں بھی بات کی۔

انہوں نے پاکستان کی جانب سے مدد کی اپیلوں پر عالمی ردعمل کی تعریف کی لیکن اسے ملک کی ضرورت کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے مترادف قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم ابھی بھی ابتدائی مراحل میں ہیں اور اپنے نقصان کی ضروریات کا جائزہ لے رہے ہیں، اب تک ہم نے صرف ہنگامی اپیلیں کی ہیں جس کا ہمیں نہ صرف امریکا بلکہ تمام دوست ممالک کی جانب سے شاندار جواب ملا ہے لیکن یہ سب آٹے میں نمک کے برابر ہے‘۔

مزید پڑھیں: امریکا، پاکستان سیلاب سے نمٹنے اور باہمی تعلقات کی مضبوطی کیلئے متحرک

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان کو سیلاب کے سبب پہنچنے والے نقصان کی شدت کا اندازہ اس کے لیے درکار رقم کے تخمینے کے بعد ہوگا، فی الوقت یہ صرف ایک اندازہ ہے کہ ملک کو مجموعی طور پر 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے‘۔

بلاول نے اپنے دورہ امریکا کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے) کے 77ویں اجلاس اور دیگر مختلف فورمز پر اپنے ملک کی حالت زار کو اجاگر کرنے میں کامیاب رہے‘۔

کوپ 27 کے آئندہ سربراہی اجلاس میں ’گرین مارشل پلان‘ پر پیشرفت کے امکانات کے حوالے سے سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ ’مجھے ایسا نہیں لگتا کہ ہمیں اس لیے کوشش کرنا چھوڑ دینا چاہیے کہ امیدیں ختم ہو گئی ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’میں نے ماحولیاتی انصاف کے بارے میں بات کی اور اسے ایک تضاد کے طور پر دیکھنے کے بجائے امریکی صدر اور یورپ کے کئی ممالک کے رہنماؤں کے بیان کردہ مؤقف کے تسلسل کے طور پر دیکھوں گا، ہمیں اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: بلاول بھٹو کے دورے سے قبل پاکستان اور امریکا کے درمیان سیکیورٹی امور پر مذاکرات مکمل

بلاول بھٹو نے کہا کہ ’ہمیں نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی موسمیاتی موافقت کے لیے رقم اکٹھی کرنے کی ضرورت ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اسی تناظر میں، میں نے ماحولیاتی دباؤ کے شکار ممالک کے لیے ایک گرین مارشل پلان تجویز کیا، یہ تمام ممالک عالمی سطح پر کاربن گیسوں کےاخراج میں نہ ہونے کے برابر حصہ ڈالتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس منصوبے کی فنڈنگ آلودگی کے ذمہ دار وہ بڑے ممالک کریں گے جنہوں نے اس بحران کو جنم دیا‘۔

انہوں نے موحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تجویز دی کہ بڑے پیمانے پر آلودگی پھیلانے والے ممالک کو مقروض ممالک کا قرضہ امداد کی صورت میں تبدیل کر دینا چاہیے‘۔

مزید پڑھیں: بھارتی تنقید مسترد، امریکا کا پاکستان کو ہتھیاروں کی فروخت کا دفاع

بلاول بھٹو نے کہا کہ ’موسمیاتی موافقت میں سرمایہ کاری کے لیے نجی شعبوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی، مجھے یقین ہے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل کو نہ صرف گرین انرجی بلکہ گرین انفرااسٹرکچر کے لیے بھی اپنایا جاسکتا ہے۔‘

وزیر خارجہ سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان کو سیلاب سے ہونے والی تباہی سے نمٹنے کے لیے بھارت کی جانب سے کوئی مدد مل رہی ہے یا کسی مدد کی توقع ہے؟ بلاول بھٹو نے دونوں سوالوں کا نفی میں جواب دیا۔

اس پر روی اگروال نے بلاول بھٹو سے سوال کیا کہ اگر وہ بھارتی وزیر خارجہ یا بھارتی سامعین کو کچھ کہنا چاہیں تو وہ کیا کہیں گے، جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ ’اگر میں کچھ کہنا بھی چاہوں تو یہاں آپ سے نہیں کہوں گا، یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے‘۔

روی اگروال نے وزیر خارجہ سے سوال کیا کہ کیا انہوں نے سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے مدد مانگی تھی؟

بلاول بھٹو نے جواب دیا کہ ’نہیں، سچ کہوں تو میں نے کسی سے مدد نہیں مانگی، میں نے امریکا، چین اور مشرق وسطیٰ سے بھی مدد نہیں مانگی، ان سب نے رضاکارانہ طور پر مدد کی، میرے خیال میں بدترین انسانی تباہی کا وقت ساری انسانیت کے لیے ایک امتحان ہوتا ہے‘۔

’آج امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات زیادہ پرامن ہیں‘

دوران انٹرویو امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور گزشتہ برسوں میں ان تعلقات میں ارتقا کا بھی احاطہ کیا گیا۔

روی اگروال نے 2010 اور 2022 کے تباہ کن سیلاب کے دوران امریکا کی جانب سے فراہم کردہ امداد کے درمیان موازنہ کیا۔

انہوں نے بلاول بھٹو سے سوال کیا کہ ’آج پاکستان کو ملنے والی امریکی امداد ماضی کے مقابلے میں محض کچھ فیصد ہے، کیا آپ کو اس بات کی فکر ہے کہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات وہ نہیں رہے جو پہلے تھے؟‘

اس پر بلاول بھٹو نے جواب دیا کہ ’نہیں، بلکہ میں آج امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات 2010 کے مقابلے میں کہیں زیادہ پرامن دیکھتا ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں صرف افغانستان کے ساتھ بریکٹ کیا گیا اور محض افغانستان کے نقطۂ نظر سے ہی دیکھا جاتا رہا‘۔

یہ بھی پڑھیں: ہم مل کر موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی تباہی سے نمٹ سکتےہیں، وزیر خارجہ

انہوں نے وضاحت کی کہ ’پاکستان کی امریکی محکمہ خارجہ اور امریکی حکومت کے ساتھ دوبارہ مشغولیت کے بعد ہم نے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کے حوالے سے زیادہ وسیع روابط دیکھے ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’بہرحال زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دنیا بدل چکی ہے، صرف پاکستان یا امریکا ہی نہیں بدلا ہے، ہم نے کورونا وائرس کی صورت میں ایک عالمی وبا کا سامنا کیا، ہم نے افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا دیکھا، ہم یوکرین کا بحران دیکھ رہے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک بہت مختلف معاشی منظرنامہ ہے، بہت زیادہ رقم ملکی اور دیگر عالمی امور پر خرچ کی جارہی ہے، میں بخوبی جانتا ہوں کہ ہر ملک اپنے اندرونی اقتصادی چیلنجز سے نمٹ رہا ہے‘۔

مزید پڑھیں: بلاول بھٹو نے طالبان کو ' تنہا ' کرنے کے سنگین نتائج سے دنیا کو خبردار کردیا

روی اگروال نے وزیر خارجہ سے سوال کیا کہ افغانستان میں گزشتہ ماہ امریکی حملے میں القاعدہ رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت میں پاکستان نے امریکا کو کس سطح پر تعاون کی پیشکش کی تھی؟

بلاول بھٹو نے جواب دیا کہ ’ہمارے ملک نے معاونت فراہم نہیں کی اور نہ ہی ہم نے یہ معلومات دی تھی کہ یہ شخص وہاں موجود تھا‘۔

روی اگروال نے مزید پوچھا کہ کیا پاکستان نے اس ڈرون حملے کے لیے امریکا کو اپنی فضائی حدود کی پیشکش کی تھی؟

بلاول بھٹو نے واضح کیا کہ ’بالکل نہیں، جیسا کہ میں نے کہا، ہمیں اس کا علم نہیں تھا، مجھے نہیں لگتا کہ کسی کو بھی اس کا علم تھا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں