اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے سنکیانگ پر بحث مسترد کردی

اپ ڈیٹ 07 اکتوبر 2022
ووٹنگ میں 11 ممالک نے حصہ نہیں لیا —تصویر: اے ایف پی
ووٹنگ میں 11 ممالک نے حصہ نہیں لیا —تصویر: اے ایف پی

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے بیجنگ کی جانب سے شدید لابنگ کے بعد چین کے علاقے سنکیانگ میں وسیع پیمانے پر ہونے والی مبینہ زیادتیوں پر بحث منعقد کرنے کے خلاف ووٹ دیا، جس سے مغربی ممالک کو بڑا دھچکا پہنچا۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق امریکا اور اتحادیوں نے گزشتہ ماہ چین کو نشانہ بنانے والے فیصلے کا پہلا مسودہ اقوام متحدہ کے حقوق کے اعلیٰ ادارے کے سامنے پیش کیا تھا جس میں سنکیانگ پر کم از کم بحث کی کوشش کی گئی تھی۔

یہ اقدام اقوام متحدہ کے حقوق کی سابق سربراہ مشیل بیچلیٹ کی جانب سے سنکیانگ پر طویل عرصے سے تاخیر کا شکار رپورٹ جاری کرنے کے بعد سامنے آیا، جس میں مغربی خطے میں ایغوروں اور دیگر مسلم اقلیتوں کے خلاف انسانیت کے خلاف ممکنہ جرائم کا حوالہ دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کی رپورٹ میں سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام

مغربی ممالک کا خیال تھا کہ صرف نتائج کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کرنے کے علاوہ دیگر بہت سی اقوام اسے ایجنڈے میں شامل کرنے سے نہیں روکیں گی۔

تاہم ڈرامائی طور پر جنیوا میں قائم 47 رکنی کونسل میں شامل ممالک نے سنکیانگ میں انسانی حقوق پر بحث کے خلاف 17 کے مقابلے میں 19 ووٹ دیے جس میں 11 ممالک نے حصہ نہیں لیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ووٹ کو مضحکہ خیز قرار دیا جبکہ ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ اس سے بدسلوکی کے متاثرین کو دھوکا ملا ہے۔

کونسل میں امریکی سفیر مشیل ٹیلر نے ٹوئٹ کیا کہ امریکا آج سنکیانگ کے بارے میں بحث کو روکنے والے ووٹ کی مذمت کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کیلئے سنکیانگ کا دروازہ کھلا ہے، نسل کشی کا الزام مسترد کرتے ہیں، چین

ٹوئٹ میں ان کا مزید کہنا تھا کہ بے عملی 'شرمناک طور پر ظاہر کرتی ہے کہ کچھ ممالک جانچ پڑتال سے آزاد ہیں اور انہیں استثنیٰ کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت ہے'۔

جن ممالک نے بحث کے خلاف ووٹ دیا ان میں بولیویا، کیمرون، چین، کیوبا، اریٹیریا، گبون، انڈونیشیا، آئیوری کوسٹ، قازقستان، موریطانیہ، نمیبیا، نیپال، پاکستان، قطر، سینیگال، سوڈان، متحدہ عرب امارات، ازبکستان اور وینزویلا شامل تھے۔

تاہم ارجنٹینا، آرمینیا، بینن، برازیل، گیمبیا، بھارت، لیبیا، ملاوی، ملائیشیا، میکسیکو اور یوکرین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

اس ضمن میں چین کے سفیر چن زو نے کہا کہ اقوام متحدہ کا 'فائدہ اٹھا کر' اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایغور مسلمانوں کا معاملہ، امریکا نے چینی عہدیداروں پر پابندیاں عائد کردیں

انہوں نے کونسل کو بتایا کہ 'مسودے کا فیصلہ انسانی حقوق کے حق میں نہیں بلکہ سیاسی جوڑ توڑ کے لیے ہے، آج چین کو نشانہ بنایا گیا ہے کل کسی دوسرے ترقی پذیر ملک کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے'۔

خیال رہے کہ فیصلے کا مسودہ امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، ناروے، سویڈن اور ترکی سمیت دیگر ممالک نے پیش کیا تھا۔

ایک مغربی سفارت کار نے اس بات پر زور دیا کہ نتائج سے قطع نظر سنکیانگ کو اسپاٹ لائٹ میں رکھنے کا 'اولین مقصد پورا ہوگیا'۔

مشیل بیچلیٹ کی رپورٹ، جو 31 اگست کو ان کی مدت ملازمت ختم ہونے سے چند منٹ قبل شائع ہوئی تھی، نے سنکیانگ میں بڑے پیمانے پر تشدد، من مانی حراست اور مذہبی اور تولیدی حقوق کی خلاف ورزیوں کے 'معتبر' الزامات کو اجاگر کیا تھا۔

مزید پڑھیں: سنکیانگ کے معاملے پر تنقید، چین نے امریکی قانون دانوں پر پابندیاں عائد کردیں

رپورٹ میں اقوام متحدہ نے طویل عرصے سے لگائے جانے والے ان الزامات کی توثیق کی تھی کہ بیجنگ نے 10 لاکھ سے زیادہ ایغوروں اور دیگر مسلمانوں کو حراست میں لیا اور خواتین کی زبردستی نس بندی کی۔

البتہ بیجنگ نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا تھا کہ وہ انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے خطے میں پیشہ ورانہ تربیتی مراکز چلا رہا ہے۔

ایمنسٹی کے سیکریٹری جنرل اگنیس کالمارڈ نے کہا کہ یہ ووٹ ایک 'افسوسناک نتیجہ تھا جس نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے مرکزی ادارے کو اقوام متحدہ کے اپنے انسانی حقوق کے دفتر کے نتائج کو نظر انداز کرنے کی مضحکہ خیز پوزیشن میں ڈال دیا ہے'۔

دوسری جانب ایچ آر ڈبلیو چائنا کی ڈائریکٹر سوفی رچرڈسن نے اسے 'ذمہ داری سے دستبردار ہونا اور ایغور متاثرین کے ساتھ غداری' قرار دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں