دنیا بھر میں جنگلی حیات کی زیرنگرانی رہنے والی آبادی میں گزشتہ 50 برسوں میں تقریباً 70 فیصد کمی کا انکشاف ہوا ہے، جس کو انسانی نقل و حرکت سے جوڑا گیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق آج جاری ہونے والی ایک نئی رپورٹ میں انسانی سرگرمیوں کے باعث فطرت کے تباہ کن نقصانات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: ہمارے ماحول کی بقا کے ضامن جنگلی حیات خطرے میں

ڈبلیو ڈبلیو ایف لوِنگ پلانیٹ انڈیکس نے رپورٹ میں ممالیہ جانوروں، پرندوں، امبیبیئنز، رینگنے والے جانوروں اور مچھلیوں سمیت 5 ہزار اقسام کی 32 ہزار آبادی کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے دنیا بھر میں ان کی تیزی سے کمی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

لاطینی امریکا اور کیریبین جیسے حیاتیاتی تنوع سے مالا مال علاقوں میں جانوروں کی آبادی میں کمی کے اعداد و شمار 94 فیصد تک ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی سطح پر 1970 کے بعد سے نگرانی کیے جانے والے جانوروں کی آبادی میں 69 فیصد کمی آئی ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر جنرل مارکو لیمبرٹینی نے کہا کہ ان کی تنظیم نئے اعداد و شمار پر ’انتہائی فکرمند‘ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیرتھر نیشنل پارک: جنگلی حیات کا مسکن

انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگلی حیات کی آبادی میں خاص طور پر گرم علاقوں میں تباہ کن کمی آئی ہے جو دنیا کے سب سے زیادہ حیاتیاتی متنوع نظاروں کا مرکز ہیں۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف میں سائنس کے ڈائریکٹر مارک رائٹ نے کہا کہ نئے اعداد و شمار خاص طور پر لاطینی امریکا کے لیے واقعی خطرناک ہیں۔

ڈائریکٹر مارک رائٹ نے کہا کہ لاطینی امریکا حیاتیاتی تنوع اور بہت سی دوسری چیزوں کے لیے بھی بہت اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاطینی امریکا آب و ہوا تبدیل کرنے کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے، ہمارا اندازہ ہے کہ فی الحال ایمیزون کے جنگلات میں 150 سے 200 ارب ٹن کاربن کا خزانہ موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ 550 ارب ٹن سے 740 ارب ٹن سی او ٹو کے برابریا موجودہ شرح پر سالانہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے 10 سے 15 گنا زیادہ ہے۔

مزید پڑھیں: محکمہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے وسائل ہی نہیں

انڈیکس میں بتایا گیا ہے کہ میٹھے پانی کی پرجاتیاں کسی دوسرے رہائش گاہوں میں پائی جانے والی جانداروں کی نسلوں کے مقابلے میں زیادہ کم ہوئی ہیں، جس میں 1970 سے اب تک 83 فیصد آبادی میں کمی آئی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کہ جنگلی حیات کے نقصان کے اصل اسباب میں ترقی اور کاشت کاری، استحصال، حملہ آور جانداروں کو لانا، آلودگی، موسمیاتی تبدیلی اور بیماریاں شامل ہیں۔

مارکو لیمبرٹینی نے کہا کہ عالمی فوڈ چین میں خلل پیدا ہونے سے قبل دنیا کو اپنے نقصان دہ اور فضول زرعی طریقوں پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جنگلات و جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے ’اشر‘

انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا میں فوڈ سسٹم زمین پر 80 فیصد جنگلات کی کٹائی کا ذمہ دار ہے اور اگر آپ سمندر اور میٹھے پانی کو دیکھیں تو وہ ان رہائش گاہوں میں مچھلیوں کے ذخیرے اور آبادی کے خاتمے کا سبب بن رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دسمبر میں حیاتیاتی تنوع کے سربراہی اجلاس کے لیے مونٹریال میں عالمی سربراہان کی ملاقات میں رپورٹ کے مصنفین نے ماحولیاتی تبدیلی پر 2015 کے پیرس معاہدے کی طرح قدرتی حیات کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی سطح پر کسی منظم معاہدے کا مطالبہ کیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں