محمود خان اچکزئی کی قیادت میں تحریک تحفظ آئین کے وفد کی جماعت اسلامی کے نومنتخب امیر حافظ نعیم الرحمٰن سے ملاقات کی، ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی مکمل طور پر اپوزیشن کی احتجاجی تحریک میں شامل نہیں ہوگی اور نہ ہی غیر مشروط حمایت کرے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کے معاملے پر جماعت اسلامی سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے اگلے ہفتے منعقد ہونے والے سیمینار کا حصہ ہوگی۔

اندرونی ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی تحریک میں شامل نہیں ہوگی اور نہ ہی غیر مشروط حمایت کرے گی، اس کے بجائے یہ ہر مسئلے کا انفرادی طور پر جائزہ لے گی اور اپوزیشن کی حمایت صرف وہیں کرے گی جہاں وہ سمجھتی ہے اور سب سے بڑھ کر جے آئی شوریٰ کی منظوری کی بنیاد پر ہی وہ حمایت ظاہر کرے گی۔

جماعت اسلامی کے ایک رہنما نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ہفتہ کو جماعت اسلامی اور جماعت اسلامی کے ہیڈکوارٹر آنے والوں کے درمیان موجودہ معاہدہ بنیادی طور پر فارم 45 سے متعلق دھاندلی کے الزامات پر مرکوز تھا، اس سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ حافظ نعیم الرحمٰن حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کے معاملے پر پی ٹی آئی سے بھی زیادہ آواز اٹھا رہے ہیں اس لیے جماعت اسلامی کے کچھ تجربہ کار اراکین صرف اس واحد ایجنڈے پر توجہ دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جماعت اسلامی آئین کے تحفظ کے لیے پوری طرح پرعزم ہے، لیکن وہ اسے دیگر سیاسی مذاکرات میں ایک سودے بازی کے طور پر استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہتی ہے، جیسا کہ کچھ جماعتیں ایسا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

محمود خان اچکزئی نے اپوزیشن کے وفد کی قیادت کی جس میں قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر اسد قیصر، ایڈووکیٹ حامد خان، ثناء اللہ بلوچ، اسد نقوی اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر جیسی اہم شخصیات شامل تھیں۔

وفد نے موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور جماعت اسلامی کو 8 مئی کو حزب اختلاف کی تحریک کے زیر اہتمام ایک سیمینار کی دعوت دی گئی۔

حافظ نعیم الرحمٰن سیمینار میں شرکت کی دعوت قبول کر لی اور مہمانوں کو جماعت اسلامی کے پروگرام میں شرکت کی یقین دہانی کرائی، ان کے ہمراہ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم اور نائب امیر ڈاکٹر اسامہ رضی بھی تھے۔

انہوں نے تجویز دی کہ اگر سیاسی جماعتیں اور ادارے آئین کی پاسداری کے لیے پرعزم ہوں تو بامعنی مذاکرات ہو سکتے ہیں، تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فارم 45 کے ذریعے عوامی مینڈیٹ کو بحال کرنا اس طرح کے مذاکرات کے لیے اہم ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی فراڈ مینڈیٹ پر بننے والی حکومت کو کبھی قبول نہیں کرے گی، انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل انکوائری کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں۔

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ پنجاب اور وفاقی حکومت کو 4 دن کا الٹی میٹم دیتے ہیں اگر گندم خریداری نہ کی تو وزیراعلیٰ آفس کے باہر دھرنا دیں گے۔

ایک بار پھر اربوں ڈالر کے گندم کی درآمد کے اسکینڈل کی جامع تحقیقات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے جماعت اسلامی کے رہنما نے سابق نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو گندم درآمد کرنے کے فیصلے کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرنے میں ناکامی پر تنقید کی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں