سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں معمر افراد کی زندگیاں خطرات کا شکار

25 اکتوبر 2022
بہت سے بوڑھے لوگ مراکز صحت تک نہیں پہنچ سکتے—فائل فوٹو: رائٹرز
بہت سے بوڑھے لوگ مراکز صحت تک نہیں پہنچ سکتے—فائل فوٹو: رائٹرز

پاکستان میں معمر افراد پر سیلاب کے اثرات سے متعلق ایک نئے سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ صحت کی خدمات کی کمی اور ملیریا اور ڈائریا جیسی بیماریوں میں اضافے کی وجہ سے سیکڑوں جانیں غیرضروری طور پر خطرے کا شکار ہیں، جو کمزور قوت مدافعتی نظام والے ضعیف افراد کے لیے مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہیلپ ایج انٹرنیشنل کے سروے میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 87 فیصد معمر افراد کی صحت خراب ہے، لیکن صرف 51 فیصد کو صحت کی دیکھ بھال تک رسائی حاصل ہے جبکہ حکومت اور اقوام متحدہ کی تشخیصی رپورٹس میں بڑی حد تک ان کی ضروریات اور حقوق کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔

ہیلپ ایج پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر سید معیز کا کہنا تھا کہ بہت سے ضعیف لوگ جن کی صحت کی صورتحال سنگین تھی سیلاب میں ان کی دوائیاں ضائع ہو گئیں جبکہ صحت کے مراکز بھی یا تو بہہ گئے یا مواد سمیت تباہ ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب کے بعد وبائی امراض سے نمٹنے کیلئے قومی پالیسی تشکیل دینے کا مطالبہ

ان کا کہنا تھا کہ بہت سے بوڑھے لوگ ان مراکز صحت تک نہیں پہنچ سکتے جو کام کر رہے ہیں اور اگر وہ پہنچ بھی سکتے ہیں تو وہ اپنی ضرورت کی دوائی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے، افسوسناک بات یہ ہے کہ اس کی وجہ سے سیکڑوں ضعیف افراد مر جائیں گے۔

انٹرویو کیے گئے بوڑھے لوگوں میں سے جن کی صحت کی خدمات تک رسائی ہے، نصف سے زیادہ نے کہا کہ وہ بہت مہنگی ہیں اور ایک تہائی سے زیادہ نے کہا کہ ان کے پاس مناسب طبی سامان نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق زیادہ تر لوگوں کے لیے صرف بنیادی صحت کی دیکھ بھال کے مراکز یا نجی کلینک دستیاب ہیں اور یہ ان لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں جو زیادہ خطرے میں ہیں۔

مزید پڑھیں: سیلاب سے متاثرہ حاملہ خواتین کے لیے سب سے زیادہ کام کون کررہا ہے؟

پہلے سے ہی دائمی بیماریوں کے خطرے میں اور عمر رسیدہ مدافعتی نظام کے ساتھ ملک میں بوڑھے لوگوں کے لیے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں، جیسے ملیریا کے خلاف لڑنا مشکل ہو رہا ہے، خاص طور پر سندھ میں اب ٹھہرے ہوئے پانی اور مچھروں کے نتیجے میں مشکلات بڑھ رہی ہیں۔

سیلاب سے پہلے بڑی تعداد میں معمر افراد سرگرمی سے کام کر رہے تھے لیکن اب سروے میں شامل افراد میں سے صرف 24 فیصد کے پاس آمدنی ہے، بے گھر ہونے والوں میں سے 61 فیصد پریشان لوگوں کو گزر بسر کرنے کے لیے قرض لینا پڑا۔

سروے سے پتا چلتا ہے کہ بوڑھے مردوں اور عورتوں کی جانب سے سب سے زیادہ تشویش کا اظہار مالی بدسلوکی (38 فیصد) کے حوالے سے کیا گیا جیسے کہ خاندان کے افراد ان سے چوری کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب زدہ علاقوں میں غذائی عدم تحفظ میں اضافے کا خدشہ

سرکاری شعبے کی افرادی قوت سے باہر پاکستان میں صرف 2.3 فیصد معمر افراد کو پنشن ملتی ہے، لہذا اگر وہ کام کرنے کے قابل نہیں تو وہ مکمل طور پر امداد یا اپنے خاندانوں پر انحصار کرتے ہیں۔

بزرگ افراد پاکستان میں خاندانوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، یہ ہنگامی حالات میں اور بھی اہم ہو جاتا ہے جب خاندان کے افراد بے گھر ہوتے ہیں یا کام کے لیے ہجرت کرتے ہیں۔

تاہم بوڑھے لوگ جو بمشکل اپنی بنیادی ضروریات پوری کر پاتے ہیں وہ بھی بچوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں، انٹرویو دینے والوں میں سے 78 فیصد تین یا اس سے زیادہ بچوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں اور بہت سے بوڑھے لوگ شدید انزائٹی کا سامنا کر رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں