سینئر پولیس افسر نے چپقلش پر نقیب اللہ محسود قتل کے مقدمے میں پھنسایا، راؤ انوار

اپ ڈیٹ 12 نومبر 2022
سابق ایس ایس پی نے بیان دیا تھا کہ وہ واقعے کے وقت وقوع کی جگہ پر موجود نہیں تھے — فائل فوٹو: ڈان نیوز
سابق ایس ایس پی نے بیان دیا تھا کہ وہ واقعے کے وقت وقوع کی جگہ پر موجود نہیں تھے — فائل فوٹو: ڈان نیوز

ملیر کے سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس(ایس ایس پی) راؤ انوار نے ماڈل نقیب اللہ محسود اور دیگر تین مغویوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ جھوٹا مقدمہ تھا اور محکمہ جاتی چپقلش پر دوسرے پولیس افسران کی ایما پر چلایا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق راؤ انوار اور ان کے دو درجن کے قریب ماتحتوں پر نقیب اللہ کے نام سے مشہور نصیب اللہ اور تین دیگر کو جنوری 2018 میں جعلی پولیس مقابلے میں ’طالبان عسکریت پسند‘ قرار دے کر قتل کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: نقیب کیس میں راؤ انوار کو بری کرنے کی پوری تیاری ہوچکی ہے، جبران ناصر

کراچی میں مقیم جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ماڈل بننے کے خواہشمند نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردعمل سامنے آیا تھا اور سابق ایس ایس پی اور ان کی ٹیم کو گرفتار کرنے میں ریاست کی ناکامی کے خلاف سول سوسائٹی کی جانب سے ملک گیر احتجاج کیا گیا تھا۔

اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا اور دو بار راؤ انوار کو ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کی تھی، سابق ایس پی پی نے تقریباً تین ماہ تک قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچنے کے بعد بالآخر مارچ 2018 میں سپریم کورٹ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے اور انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

اس کے بعد سندھ پولیس نے انہیں ملیر چھاؤنی کے ایک گھر میں رکھا جسے بعد میں سب جیل قرار دے دیا گیا تھا۔

ہائی پروفائل ٹرائل کو بالخصوص اس سال 11 مارچ سے غیر معمولی تاخیر کا سامنا کرنا پڑا جہاں چار سال بعد یہ مقدمہ ملزم پولیس اہلکاروں کی شہادتیں ریکارڈ کرنے کے اہم موڑ پر پہنچ چکا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: راؤ انوار ’جعلی‘ پولیس مقابلے کے مقام پر موجود تھے، تفتیشی افسر

تاخیر زیادہ تر ان کے وکیل استغاثہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہوئی جبکہ جج کی مدت بھی ختم ہو چکی تھی، مقدمے کی سماعت گزشتہ ماہ شروع ہوئی تھی۔

پولیس اہلکاروں کے خلاف شکایت کنندہ نقیب اللہ محسود کے بوڑھے والد محمد خان دسمبر 2019 میں انتقال کر گئے تھے، ان کے انتقال کے بعد نقیب کے چھوٹے بھائی عالم شیر شکایت کنندہ بن گئے تھے۔

چار سال سے زائد عرصے کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر XVI کے جج نے بالآخر 5 نومبر کو راؤ انوار کا بیان ریکارڈ کیا۔

جعلی پولیس مقابلے کے بعد ایس ایس پی کے انٹرویو کی سی ڈیز کو کمرہ عدالت میں چلانے کے لیے شکایت کنندہ کی درخواست پر دلائل کے لیے معاملہ 24 نومبر کو سماعت کے لیے مقرر ہے۔

سابق ایس ایس پی نے بیان دیا تھا کہ وہ واقعے کے وقت وقوع کی جگہ پر موجود نہیں تھے اور نہ ہی 4 سے 6 جنوری 2018 کے درمیان انہو نے نئی سبزی منڈی کا دورہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: امریکا کے بعد برطانیہ نے بھی راؤ انوار پر پابندیاں عائد کردیں

اپنے 8 صفحات پر مشتمل بیان میں ٹرائل کا سامنا کرنے والے سابق پولیس افسر کا کہنا تھا کہ مجھے اس کیس میں ایک سینئر پولیس افسر کے کہنے پر منظم جیو فینسنگ کی بنیاد پر پھنسایا گیا کیونکہ اس افسر سے میری محکمہ جاتی چپقلش ہے، انہوں نئے مزید کہا گیا کہ کال ریکارڈ ڈیٹا اور جیوفینسنگ ایک دوسرے سے متصادم ہیں تاہم گزشتہ سال دسمبر میں کیس کے تفتیشی افسر ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان احمد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ راؤ انوار کا کال ڈیٹا ریکارڈ اور جیوفینسنگ سیل فون نے اسے 13 جنوری 2018 کی صبح 2.41 بجے سے صبح 5:18 کے درمیان کرائم سین پر موجود دکھایا تھا۔

ڈاکٹر رضوان احمد نے ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل اسی سال 4، 5، 8 اور 9 جنوری کو راؤ انور بھی نیو سبزی منڈی پولیس چوکی کے آس پاس موجود تھے۔

راؤ انوار نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ نے انہیں چاروں افراد کے اغوا اور قتل کا مرکزی ملزم قرار دیا تھا لیکن یہ رپورٹ جھوٹی، غلط اور ناقابل قبول تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں