کراچی: طبی عملے کے احتجاج کے باعث سڑکیں بند ہونے سے شہری پریشان

اپ ڈیٹ 14 نومبر 2022
شہری متبادل راستے اختیار کر رہے ہیں جس سے ٹریفک سست روی کا شکار ہے —فوٹو: شاہزیب احمد
شہری متبادل راستے اختیار کر رہے ہیں جس سے ٹریفک سست روی کا شکار ہے —فوٹو: شاہزیب احمد

کراچی میں طبی عملہ، ڈاکٹرز اور نرسز کی جانب سے جاری بائیکاٹ کی وجہ سے ڈاکٹر ضیاالدین احمد روڈ اور وزیر اعلیٰ ہاؤس کی طرف جانے والی سڑکیں بند کردی گئیں جس سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سندھ حکومت کی جانب سے ہیلتھ رسک الاؤنس بند کرنے کے خلاف گرینڈ ہیلتھ الائنس کی کال پر ڈاکٹرز، پیرا میڈیکس اور لیڈی ہیلتھ ورکرز احتجاج کر رہے ہیں، گزشتہ ہفتے پولیس نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب جانے کی کوشش کرنے والے متعددمظاہرین کو حراست میں لے لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ: ہیلتھ رسک الاؤنس کیلئے ڈاکٹروں، طبی عملے کا ہسپتالوں کی او پی ڈیز کا بائیکاٹ

گزشتہ ایک ہفتے سے وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب جانے والی سڑک کو بند کردیا گیا ہے، شہری متبادل راستے اختیار کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں ٹریفک سست روی کا شکار ہے۔

وزیر اعلیٰ ہاؤس کے قریب ڈان سمیت دیگر ملازمین کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ایس ایس پی جنوبی سید اسد رضا کا کہنا ہے کہ 11 نومبر سے کراچی پریس کلب کے باہر ہیلتھ کئیر ورکرز دھرنا دے رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی پریس کلب کے باہر پیر کو 60 سے 70 مظاہرین دھرنا دے کر بیٹھے ہیں مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

ہیلتھ ورکرز کا منگل کو وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب جانے کا اعلان

دوسری جانب ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن (وائی ڈی اے) کے نمائندہ ڈاکٹر فیضان میمن نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ گزشتہ 6 دنوں سے ہیلتھ ورکرز کا احتجاج جاری ہے، لیکن حکومت نے ہمارے مطالبات تسلیم کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں اسی مقصد کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی لیکن اس نے بھی ہم سے رابطہ نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: سندھ بھرمیں طبی عملے کی ہڑتال کے باعث ہسپتال میں 3 مریض جاں بحق

ڈاکٹر فیضان میمن نے بتایا کہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کی گرفتاری اور تشدد کے خلاف ہم نے سندھ بھر میں او پی ڈی، آپریشن تھیٹرز اور وارڈز بند کر دیے ہیں، ہسپتالوں میں صرف ایمرجنسی مریضوں کا علاج کیا جارہا ہے جبکہ دیگر تمام سہولیات بند کردی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ طبی اہلکاروں کے لیے بنائی گئی کمیٹی آج شام اجلاس منعقد کرے گی تاکہ مستقبل کے لائحہ عمل ترتیب دیا جاسکے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے کل (15 نومبر کو) وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب جانے کا فیصلہ کیا ہے، آج وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب جانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

احتجاج

محکمہ صحت نے گزشتہ ماہ کورونا کے کیسز میں کمی کے باعث کووِڈ 19 رسک الاؤنس واپس لے لیا تھا۔

اس کے نتیجے میں سندھ بھر میں طبی عملے بشمول ڈاکٹرز اور نرسز نے سندھ حکومت کی جانب سے رسک الاؤنس ختم کرنے کے خلاف احتجاج کیا۔

یہ بھی پڑھیں: طبی عملے کا مسلسل پانچویں روز احتجاج، سندھ بھر میں او پی ڈیز بند

طبی عملے کی جانب سے ایمرجنسی کے علاوہ تمام ہیلتھ سروسز کا بائیکاٹ کرنے کے بعد سندھ بھر کے مریضوں کو شدید مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

خیال رہے کہ ملک میں کورونا وبا کے دوران سندھ حکومت کی جانب سے 2 سال کے لیے رسک الاؤنس کا اعلان کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا کہ گریڈ ایک سے 16 کے درمیان طبی عملہ کو 17 ہزار جبکہ گریڈ 16 سے اوپر والے افراد کو 35 ہزار دیے جائیں گے، سال 2020 میں یہ رسک الاؤنس بند کردیا گیا تھا لیکن طبی عملے کے احتجاج کے بعد دوبارہ بحال کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں