الیکشن کمیشن کی سندھ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی مشروط پیشکش

اپ ڈیٹ 14 نومبر 2022
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ہم نے زمینی حقائق بتا دیے، الیکشن کمیشن کے پاس آئینی اختیار ہے وہ فیصلہ کرے — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ہم نے زمینی حقائق بتا دیے، الیکشن کمیشن کے پاس آئینی اختیار ہے وہ فیصلہ کرے — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کے خلاف درخواستوں پر تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا جب کہ صوبائی الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ پولیس اور وزارت داخلہ سیکیورٹی فراہم کرے تو آئندہ 15 روز میں الیکشن کرا دیں گے۔

یاد رہے کہ کراچی اور حیدر آباد میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کیے جانے کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں بلدیاتی انتخابات ایک بار پھر ملتوی ہونے کا امکان

سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی، آئی جی سندھ، صوبائی الیکشن کمشنر اور چیف سیکریٹری سندھ عدالت میں پیش ہوئے۔

جماعت اسلامی کے رہنما حافظ نعیم الرحمٰن اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما وسیم اختر اور خواجہ اظہار الحسن بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

درخواست پر سماعت کے آغاز پر آئی جی سندھ پولیس کی جانب سے نفری کی تعداد اور تعیناتی کی رپورٹ پیش کردی گئی، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ رینجرز کی رپورٹ کہاں ہے، جس کے بعد رینجرز کی رپورٹ بھی عدالت میں جمع کرا دی گئی۔

اس دوران پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ ہمیں پولیس اور رینجرز کے جواب کی کاپی فراہم کی جائے، عدالت نے استفسار کیا کہ صوبائی الیکشن کمشنر کہاں ہیں، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے الیکشن کمشنر سے استفسار کیا کہ کب الیکشن کرائیں گے، جس پر صوبائی الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہم الیکشن کرانے کے لیے تیار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کا کراچی میں بلدیاتی انتخابات ایک بار پھر ملتوی کرنے کا فیصلہ

اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیوں سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرکے توہین عدالت کر رہے ہیں، ایک ساتھ الیکشن نہیں ہو سکتے تو مرحلہ وار کرا لیے جائیں، عدالت نے آئی جی سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی سندھ آپ بتائیں۔

الیکشن کمشنر نے کہا کہ 1360 حساس پولنگ اسٹیشنز ہیں، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ حساس پولنگ اسٹیشنز کا کیا مطالبہ ہے، الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہم الیکشن کرانے کو تیار ہیں، پولیس اور وزارت داخلہ سیکیورٹی فراہم کریں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کراچی ڈویژن میں کتنے روز میں الیکشن کرا دیں گے جس پر الیکشن کمشنر نے کہا کہ آئندہ 15 روز میں الیکشن کرادیں گے۔

چیف جسٹس نے آئی جی سے استفسار کیا کہ کتنے فورس فراہم کریں گے، جتنی فورس کہیں گے اتنی فراہم کریں گے؟

اس موقع پر ایم کیو ایم پاکستان کے وکیل نے کہا کہ کل الیکشن کمیشن نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اسلام آباد میں طلب کر رکھا ہے، ہم متاثر ہوئے ہیں، میرے 9 کیس زیر التوا ہیں، اس حوالے سے حلقہ بندی اور الیکشن کمیشن کا کورم پورا نہیں ہے، جس وقت الیکشن کا اعلان ہوا الیکشن کمیشن کا کورم پورا نہیں تھا، اس پر چیف جسٹس نے ایم کیو ایم کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ چاہتے ہیں الیکشن نہ ہوں؟

یہ بھی پڑھیں: حکومت سندھ کا تیسری مرتبہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا مطالبہ

ایم کیو ایم کے وکیل نے کہا کہ ہماری الیکشن کمیشن کے اختیارات اور فیصلے سے متعلق اہم درخواست زیر التوا ہے، الیکشن کمیشن نے نامکمل کورم ہونے کے باوجود اہم فیصلے کیے جو غیر قانونی اور بلاجواز ہے۔

اس موقع پر عدالت نے خواجہ اظہار الحسن کو بولنے سے روک دیا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دلائل دیں یا وکیل کو بات کرنے دیں، دونوں کو اجازت نہیں دے سکتے۔

ایم کیو ایم کے وکیل نے کہا کہ قوانین میں ترامیم کے لیے سلیکٹ کمیٹی بن چکی ہے، ایم کیو ایم پاکستان بھی کام کر رہی ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کا کہنا ہے ترامیم سے پہلے الیکشن نہ ہوں؟ ایم کیو ایم کے وکیل نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں سپریم کورٹ کے بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے۔

اس دوران عدالت نے چیف سیکریٹری اور آئی جی سندھ کو روسٹرم پر بلا لیا، آئی جی سندھ نے کہا کہ ہمارے پاس مکمل فورس ایک لاکھ 18 ہزار ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ دفاعی نمائش میں کتنی نفری ہے؟ آئی جی سندھ نے کہا کہ ایکسپو میں 3 ہزار نفری تعینات ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی ضمنی انتخابات: آئی جی اور رینجرز سے سیکیورٹی کی رپورٹ طلب

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ 2 اہم مسائل کا سامنا ہے، پولیس اور رینجرز سیکیورٹی فراہم کرنے سے قاصر ہے، جسٹس یوسف علی سعید نے ریمارکس دیے کہ آپ کیا چاہتے ہیں ہم ٹیوشن کلاسز کرائیں؟ کوچنگ بھی دیں؟ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، صوبائی حکومت کا نہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ہم پہلے مرحلے کا الیکشن کرا چکے ہیں، اب بھی کرانے کے لیے تیار ہیں، الیکشن کمیشن کل کرا دے تو ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں مگر ہم نے زمینی حقائق بتا دیے ہیں، الیکشن کمیشن تمام فریقین اور زمینی حقائق کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے، الیکشن کمیشن کے پاس آئینی اختیار ہے وہ خود فیصلہ کرے۔

دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل عبدالوہاب بلوچ نے کہا کہ تین بار الیکشن ملتوی کر دیے گئے، کہتے ہیں نفری کی کمی ہے اور لانگ مارچ کے لیے 6 ہزار نفری اسلام آباد بھیج دی گئی، الیکشن کمیشن کے پاس مکمل اختیار ہے، فوری الیکشن کرانے کا حکم دیا جائے۔

جماعت اسلامی کے وکیل ایڈووکیٹ سیف الدین نے کہا کہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی ایسی ہی درخواست سپریم کورٹ مسترد کرچکی ہے، درخواست میں الیکشن رکوانے کی کوشش کی گئی، یہ سارے نکات سپریم کورٹ مسترد کرچکی ہے، ایم کیو ایم نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ ترامیم ہونے تک الیکشن روکے جائیں، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو فوری بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا، الیکشن کروانے کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے، روکنے کے لیے درخواست نہیں کی جاسکتی۔

یہ بھی پڑھیں: وزارت داخلہ کی الیکشن کمیشن سے قومی اور پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست

اس کے ساتھ ہی سندھ ہائی کورٹ نے تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے بھی سندھ کابینہ نے مزید 90 روز کی تاخیر سے الیکشن کرانے کی تجویز منظور کرلی تھی جس کے بعد کراچی میں بلدیاتی الیکشن ایک بار پھر ملتوی ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔

اس سے قبل گزشتہ ماہ 18 اکتوبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حکومت سندھ کی تیسری درخواست پر 23 اکتوبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست پر کراچی میں بلدیاتی انتخابات تیسری مرتبہ ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

سندھ حکومت کی جانب سے دائر کردہ تیسری درخواست میں الیکشن کمیشن کو مطلع کیا گیا تھا کہ انتخابات کے پرامن انعقاد کے لیے تقریباً 5 ہزار پولنگ اسٹیشنز کے لیے 16 ہزار 786 پولیس اہلکاروں کی کمی ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی حکومت سندھ کی درخواست مسترد

درخواست میں کہا گیا کہ سیلاب کے بعد کی صورتحال میں کراچی پولیس سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں اضافی فرائض انجام دے رہی ہے، سیلاب کے باعث بے گھر ہونے والے افراد کی بڑی تعداد کراچی کے مختلف اضلاع میں منتقل ہوگئی ہے، وہاں سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے بھی پولیس کی تعیناتی ضروری ہے۔

سندھ حکومت نے استدعا کی تھی کہ امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر کراچی میں 23 اکتوبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو 3 ماہ کے لیے ملتوی کیا جائے جس پر الیکشن کمیشن نے کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس سے قبل 24 جولائی کو کراچی اور حیدر آباد ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات شیڈول تھے اور اس حوالے سے تیاریاں بھی تقریباً مکمل کرلی گئی تھیں۔

24 جولائی کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات 20 جولائی کو ممکنہ بارشوں کے پیش نظر ملتوی کرکے 28 اگست کو کرانے کا اعلان کیا گیا تھا، تاہم بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے 28 اگست کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات بھی ملتوی کردیے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: کراچی میں بلدیاتی انتخابات: سندھ پولیس نے سیکیورٹی دینے سے معذرت کرلی

قبل ازیں 26 جون کو پہلے مرحلے میں سکھر، لاڑکانہ، شہید بینظیر آباد اور میرپورخاص ڈویژن کے کُل 14 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا تھا۔

گزشتہ ہفتے سماعت کے دوران کراچی میں ضمنی انتخابات کی تاریخ میں تاخیر پر سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ نے الیکشن کمیشن حکام کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ بلدیاتی الیکشن کیوں نہیں کرائے جارہے؟ بہت ہوگیا الیکشن کرائیں۔

تبصرے (0) بند ہیں