طبی عملے کے احتجاج کے باعث فوج یا رینجرز کی خدمات طلب نہیں کیں، محکمہ صحت سندھ

اپ ڈیٹ 15 نومبر 2022
طبی عملہ کے احتجاج کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے باعث شدید ٹریفک جام ہوگیا تھا —فوٹو: شکیل عادل/فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار/آن لائن
طبی عملہ کے احتجاج کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے باعث شدید ٹریفک جام ہوگیا تھا —فوٹو: شکیل عادل/فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار/آن لائن

محکمہ صحت سندھ نے گرینڈ ہیلتھ الائنس کی طرف سے شروع کیے گئے مظاہروں اور ہڑتال سے نمٹنے کے لیے رینجرز اور افواج پاکستان کی خدمات طلب کرنے کی رپورٹس مسترد کرتے ہوئے وضاحت کردی ہے۔

صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کے تعلقات عامہ کے افسر مہر خورشید کی طرف سے جاری کیے گئے وضاحتی بیان میں بتایا گیا ہے کہ ’ایک نجی ٹی وی چینل پر حقیقت کے برعکس خبر نشر کی گئی ہے کیونکہ حکام نے مدد کے لیے رینجرز یا آرمی سے رابطہ نہیں کیا، تاہم نشر کی گئی خبر ’فیک نیوز‘ ہے۔

وزیرصحت کے افسر تعلقات عامہ نے کہا کہ ’میں نے جناح ہسپتال کی انتظامیہ سے بات کی ہے، ان کی رینجرز سے اس معاملے پر صرف اتنی بات ہوئی ہے جس میں رینجرز کی جانب سے ہڑتال کی وجہ سے ایمرجنسی چلانے کے لیے ڈاکٹروں کی پیش کش کی گئی ہے جو کہ رینجرز یونٹ کا حصہ ہیں‘۔

خیال رہے کہ رواں ہفتے محکمہ صحت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے صوبائی حکومت کو طبی عملے کی ہڑتال کے تناظر میں کمیونٹیز میں اموات اور بیماری کے خطرے سے خبردار کیا تھا۔

دریں اثنا، کراچی پولیس نے واٹرکینن اور شیلنگ کا استعمال کرتے ہوئے کم از کم 25 خواتین طبی عملے کو حراست میں بھی لیا تھا جہاں وہ وزیراعلیٰ ہاؤس کی طرف مارچ کر رہی تھیں۔

واضح رہے کہ اکتوبر میں محکمہ سندھ نے یہ کہہ کر کورونا وائرس رسک الاؤنس ختم کیا تھا کہ اب کورونا وائرس سے بڑے پیمانے پر کوئی خطرہ نہیں ہے۔

سندھ حکومت کے ایسے اعلان کے بعد طبی عملہ نے صوبے بھر میں اپنی سروسز کا بائیکاٹ کردیا تھا جہاں او پی ڈی اور ایمرجنسی یونٹس طبی عملہ سے خالی ہوگئی جس کہ وجہ سے ہزاروں مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

گزشتہ ہفتے، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ (این آئی سی ایچ) میں تین مریضوں کی موت ہوگئی کیونکہ طبی عملہ نے گرانڈ ہیلتھ الائنس کے ماتحت ہڑتال اور احتجاج کر رکھا ہے۔

طبی عملہ کی طرف سے وزیر اعلیٰ ہاؤس کی طرف مارچ کرنے کے منصوبہ سے سڑکیں بند رکھیں گئیں جہاں مسافروں اور شہریوں کو بھی متعدد مسائل سے دوچار ہونا پڑا۔

تبصرے (0) بند ہیں