جمال خاشقجی قتل کیس: سعودی ولی عہد کو قانونی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے، امریکی حکومت

اپ ڈیٹ 19 نومبر 2022
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان (دائیں) اور صحافی جمال خاشقجی (بائیں) — فوٹو، فائل
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان (دائیں) اور صحافی جمال خاشقجی (بائیں) — فوٹو، فائل

امریکا کی حکومت نے 2018 میں ترکی میں قتل ہونے والے سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خاشقجی کے کیس میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو قانون کارروائی سے استثنیٰ دینے کی سفارش کردی۔

غیر ملکی خبر ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی طرف سے ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کی عدالت میں پیش کی گئی تجویز میں کہا گیا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اس وقت سعودی حکومت کے وزیراعظم ہیں، لہٰذا انہیں اس کیس سے استثنیٰ حاصل ہے۔

رپورٹ کے مطابق اگر امریکا کی حکومت نے اس معاملے پر اپنی رائے پیش کرنے کا انتخاب کیا تو حکومت کے پاس رائے پیش کرنے کے لیے جمعرات (کل) تک وقت تھا، لہٰذا حکومت کی سفارش عدالت پر پابند نہیں ہے۔

عدالت میں جمع کی گئی تجاویز میں لکھا گیا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ موجودہ مقدمے کی میرٹ پر کوئی نکتہ نظر نہیں رکھتا اور صحافی کے قتل پر واضح مذمت کا اعادہ کرتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکی حکومت کی ایسی تجاویز نے صحافی جمال خاشقجی کی بنائی گئی این جی او ڈیموکریسی فار دی عرب ورلڈ ناؤ کے نمائندگان، ان کی منگیتر اور دیگر حامیوں میں شدید غم وغصہ پیدا کردیا ہے۔

ڈیموکریسی فار دی عرب ورلڈ ناؤ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارا لیہ وٹسن نے کہا کہ ’بائیڈن انتظامیہ محمد بن سلمان کے لیے استثنیٰ کی سفارش کرنے اور انہیں احتساب سے بچانے کے لیے اپنے راستے سے ہٹ گئی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’چونکہ جو بائیڈن نے سعودی ولی عہد کو استثنیٰ دے دی ہے تو اب ہم محمد بن سلمان سے اپنے ملک کے لوگوں کے خلاف مزید کارروائیاں کرنے کی ہی توقع کر سکتے ہیں‘۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امریکی حکومت کی تجاویز کو ’شدید دھوکا‘ قرار دے دیا ہے۔

خیال رہے محمد بن سلمان چند برسوں سے سعودی عرب کے ولی عہد ہیں جو کہ اپنے والد شاہ سلمان کے دور میں نائب وزیر اعظم اور وزیر دفاع کے عہدوں پر رہ چکے ہیں۔

صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد کافی عرصے تک تنہائی کا شکار رہنے والے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا رواں سال دنیا کی اسٹیج پر واپس آنے پر استقبال کیا گیا جس میں امریکی صدر جو بائیڈن کا رواں سال جولائی میں دورہ سعودی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ بادشاہی ریاست کو عالمی سطح پر تنہا رکھنے کا عزم کیا گیا تھا۔

سابق سعودی جاسوس سعد الجابری کے بیٹے خالد الجابری نے کہا کہ ان تجاویز کا مطلب سعودی حکومت کے سربراہ کو قتل کرنے کا لائسنس دینا ہے۔

خالد الجابری نے کہا کہ صحافی کے قتل میں سعودی ولی عہد کو سزا دینے کا عزم توڑتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ نے نہ صرف محمد بن سلمان کو امریکی عدالت میں احتساب سے استثنیٰ دی گئی ہے لیکن بغیر کسی ڈر کے اپنے مزید ناقدین کو قتل کرنے کا لائسنس دیتے ہوئے پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک بنا دیا گیا ہے۔

شہزادہ محمد بن سلمان کو کو ستمبر میں شاہی فرمان کے ذریعے وزیراعظم نامزد کیا گیا تھا جس کے بعد یہ قیاس آرائیاں سامنے آنے لگیں کہ وہ غیرملکی عدالتوں میں دائر مقدمات سے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں جن میں مقتول صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر ہیٹیس سینگز کی طرف سے امریکا میں دائر کی گئی درخواست بھی شامل ہے۔

چار سال قبل استنبول میں سعودی عرب کے سفارت خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے وحشیانہ قتل کے بعد مغرب میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو عارضی طور پر تنہائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

محمد بن سلمان کے وکلا نے امریکی عدالت میں پہلے دلائل دیے تھے کہ وہ سعودی عرب کی حکومت کے سب سے اعلیٰ منصب پر فائز ہیں اور اس طرح استثنیٰ دینے کے اہل ہیں کیونکہ امریکی عدالتوں میں غیر ملکی سربراہان مملکت اور دیگر اعلیٰ عہدے داروں کو استثنیٰ حاصل ہے۔

گزشتہ سال امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک انٹیلی جنس رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان نے صحافی کے خلاف آپریشن کی منظوری دی تھی تاہم، سعودی حکام نے اس رپورٹ کو مسترد کردیا تھا۔

مقتول صحافی کی منگیتر اور ڈیموکریسی فار دی عرب ورلڈ ناؤ کی طرف سے دائر کیے گئے سول مقدمے میں مدعی نے الزام عائد کیا تھا کہ شہزادہ محمد بن سلمان اور 20 سے زائد مدعا علیہان نے ایک سازش کے تحت صحافی کو منصوبہ بندی سے اغوا کرکے، نشہ دے کر، تشدد کے بعد وحشیانہ طریقے سے قتل کیا۔

انہوں نے مالیاتی ہرجانے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ہی یہ ثابت کرنے کے لیے درخواست دائر کی تھی کہ قتل کا حکم سعودی عرب کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں