کراچی کی سیشن کورٹ نے گزشتہ برس اکتوبر میں 11 سالہ لڑکے کو ریپ کا نشانہ بنانے کے جرم میں گرفتار ملزم کو 14 سال قید کی سزا سنا دی۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج وسطی ذبیحہ خٹک نے فیصلہ سنایا، جو دونوں اطراف سے شواہد پیش کرنے اور دلائل دینے کے بعد محفوظ کیا گیا تھا۔

عدالت میں ملزم سید عنایت پر لیاقت آباد پولیس اسٹیشن کی حدود میں 25 اکتوبر 2021 کو ’بی ایریا‘ میں متاثرہ لڑکے کا ریپ کے کا جرم ثابت ہوا ہے۔

انہوں نے نوٹ کیا کہ معاشرے میں اس قسم کے جرائم عروج پر ہیں، جو تباہی کا باعث بنتے ہیں۔

فیصلے میں انہوں نے لکھا کہ اس قسم کے جرائم سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے۔

جج نے بتایا کہ استغاثہ ملزم کے خلاف بغیر کسی شک و شبے کے کامیابی سے کیس پیش کرنے میں کامیاب رہے۔

انہوں نے ملزم کو 14 سال قید کی سزا سنائی اور 10 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کے بھی احکامات دیے، جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں اسے مزید 6 ماہ قید کاٹنا ہوگی۔

جج نے مجرم کو سزا پوری کرنے کے لیے جیل بھیج دیا، جو پولیس کی حراست میں تھا۔

سرکاری استغاثہ حنا ناز نے دلائل دیے تھے کہ متاثرہ لڑکا 25 اکتوبر کی رات کو کھیلنے کے لیے گیا تھا، جہاں پر ملزم نے اسے کھانا دے کر اپنے گھر پہنچانے کا کہا تھا جس کا گھر اسی علاقے میں تھا۔

انہوں نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ متاثرہ لڑکا جیسے ہی گھر پہنچا تو ملزم ان کا پیچھا کرتے ہوئے وہاں پہنچا اور گھر کا دروازہ اندر سے بند کر لیا، اس کے بعد تقریباً 15 منٹ تک زبردستی ریپ کیا اور اسے جانے دیا اور دھمکی دی کہ واقعے کا کسی کو نہ بتائے۔

حنا ناز نے بتایا کہ شکایت کنندہ نے ملزم کو اس کے گھر پر بیٹے کی نشان دہی پر پکڑا، جہاں پر علاقہ مکینوں نے ملزم کو پولیس کے حوالے کرنے سے پہلے مارا۔

استغاثہ نے دعویٰ کیا کہ طبی شواہد جس میں ڈی این اے بھی شامل ہے جو میچ کر گیا، واقعاتی اور عینی شاہدین سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس نے جرم کا ارتکاب کیا ہے، انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ ملزم کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

جج نے فیصلے میں لکھا کہ شکایت کنندہ جو کہ متاثرہ لڑکے کے والد ہیں، نے ایف آئی آر کے متن، گرفتاری اور جائزے کو مکمل سپورٹ کیا، انہوں نے بتایا کہ متاثرہ لڑکے نے جس کی عمر صرف 11 برس ہے، نے صحیح طریقے سے ملزم کی شناخت کی اور استغاثہ سے دلائل کی مکمل حمایت کی اورجرم پر سزا دلانے کے لیے ان کے کردار کو بیان کیا حالانکہ اسے جرح کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن ثبوت ریکارڈ کروانے کے حوالے سے شکایت کنندہ اور متاثرہ لڑکے میں کوئی متضاد سامنے نہیں آیا۔

ملزم کا بیان کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 342 کے تحت ریکارڈ کیا گیا جس میں اس نے الزامات کی تردید کی اور دعویٰ کیا کہ استغاثہ کے تمام گواہوں نے ان کے خلاف جھوٹے بیان دیے ہیں، تاہم وہ اپنے دفاع میں کوئی بھی گواہ پیش کرنے میں ناکام رہا۔

ملزم کے وکیل راحت بیگ نے بھی ملزم کے بے گناہ ہونے کا دعویٰ کیا اور استغاثہ کی جانب سے جھوٹے الزامات پر بری کرنے کی درخواست کی۔

متاثرہ لڑکے کے والد کی شکایت پر لیاقت آباد پولیس اسٹیشن میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 377-بی اور دفعہ 511 کے تحت درج کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں