مسلم لیگ (ق) عوامی سطح پر عمران خان کے اس مؤقف کا ساتھ دیتی نظر آتی ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اس کے ساتھ ہی گجرات کے چوہدریوں نے پی ٹی آئی رہنما کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایسا قدم اٹھانے سے پہلے موجودہ سیاسی صورتحال کا جائزہ لینے میں دانش مندی اور سوچ بچار سے کام لیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی کے بیٹے مونس الہٰی نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کے حوالے سے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے درمیان کوئی تنازع نہیں ہے اور ہم نے پی ٹی آئی چیئرمین کو یہ پیغام دوٹوک اور واضح انداز میں پہنچا دیا ہے کہ اگر وہ فوری طور پر پنجاب میں انتخابات کو یقینی بنا سکتے ہیں تو صوبائی اسمبلی پلک جھپکنے میں تحلیل کردی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کا فیصلہ موجودہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے دانشمندی سے کرنا چاہیے، ہم نے ان تمام تحفظات اور خیالات کا اظہار عمران خان کے ساتھ وزیراعلیٰ پرویز الہٰی، مونس الہٰی اور حسین الہٰی کی زمان پارک کی رہائش گاہ پر یکم دسمبر کوہونے والی ملاقت میں کیا۔

چوہدری مونس الہٰی کے مطابق مسلم لیگ (ق) نے خوشی سے عمران خان کے کسی بھی وقت اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے سے اتفاق کیا ہے، لیکن انہیں اس حقیقت کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت ٹیکنیکل معاملات کے ذریعے انتخابات میں تاخیر نہ کرسکے جب کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اقتدار سے باہر ہونے کے بعد صورتحال دونوں جماعتوں کے لیے مشکل تر ہو سکتی ہے۔

عمران خان کو دونوں صوبوں کی صوبائی حکومتیں چھوڑنے کا ’حیران کن‘ اعلان کیے ہوئے 2 ہفتے ہوچکے ہیں جب کہ اس دوران پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری سے لے کر شاہ محمود قریشی تک سب ہی مسلسل یہی پیغام دے رہے ہیں کہ فوری طور پر اسمبلیاں تحلیل کرنا چاہتے ہیں۔

تاہم عمران خان جو کہ حالیہ دنوں میں اس حوالے سے خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے کہ اسمبلیاں کب تحلیل ہوں گی، انہوں نے بھی ہفتے کے روز نجی نیوز چینل ’بول نیوز‘ کو بتایا کہ ان کی پارٹی رواں ماہ میں ہی اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ کرے گی۔

شاید اس بات کا احساس کرتے ہوئے کہ مارچ تک عام انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں جیسا کہ وہ پہلے سمجھ رہے تھے، عمران خان نے اعتماد کا اظہار کیا کہ وہ پی ڈی ایم جماعتوں کو شکست دیں گے چاہے وہ الیکشن 10 ماہ یا ایک سال بعد کرائیں۔

اپنے تازہ ترین انٹرویو میں پی ٹی آئی سربراہ نے تسلیم کیا کہ وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی نے پنجاب حکومت کو مزید کچھ وقت کے لیے برقرار رکھنے کی تجویز دی ہے، انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ق) کے رہنما نے انہیں یقین دلایا ہے کہ وہ اس سلسلے میں میری ہدایات پر عمل کریں گے۔

چند روز قبل پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے ڈھکے چھپے الفاظ میں دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر مسلم لیگ (ق)، پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد برقرار رکھنا چاہتی ہے تو پرویز الہٰی کو اسمبلی تحلیل کرنا پڑے گی جب کہ ان کے اس بیان پر عوامی سطح پر مسلم لیگ (ق) کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں دیا گیا تھا۔

پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی اس بات کو سمجھتی ہے کہ اسمبلی کی فوری تحلیل دونوں اتحادی جماعتوں کے درمیان بڑے مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔

اس احساس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات اپریل میں منعقد کیے جانے کے اعلان کے بعد ایسا لگتا ہے کہ عام انتخابات اس سے قبل منعقد نہیں کیے جاسکتے۔

پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے حکومت سے نکلنے کے بعد پارٹی رہنماؤں، عہدیداروں اور حامیوں کے لیے رواں سال 25 مئی کے پی ٹی آئی مارچ کے شرکا کو درپیش پولیس ایکشن کے طرز کی کارروائی کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

سالک حسین کی نواز شریف سے ملاقات

دوسری جانب لندن میں مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین نے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سے ملاقات کی جہاں دونوں دونوں رہنماؤں نے سیاسی اتحاد برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔

اسٹین ہوپ ہاؤس میں ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے سالک حسین سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے دونوں دھڑوں کے متحد ہونے کے امکان پر بات کی، تو انہوں نے کہا کہ ہر معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا، والد نے دورہ لندن کے دوران میاں نواز شریف کو سلام کہنے اور ان کی خیریت دریافت کرنے کا کہا۔

اس سوال پر کہ کیا پرویز الہٰی اپنا سیاسی مؤقف بدل رہے ہیں انہوں نے معنی خیز جواب دیا کہ نیت اہم ہے، اگر نیت صاف نہیں تو اس کے نتائج ہوتے ہیں، سب جانتے ہیں کہ کیا حالات تھے اور کیا ہو رہا تھا، جو کچھ ہو رہا تھا میں اسے دہرانا نہیں چاہتا۔

اس سوال پر کہ کیا پرویز الہٰی پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد برقرار رکھیں گے، انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں۔

مونس الہٰی کے اس دعوے کے بارے میں پوچھا گیا کہ یہ فوج کا دباؤ تھا جس نے عمران خان کا ساتھ دینے کے فیصلے کی رہنمائی کی تو سالک حسین نے کہا کہ اگر ایسا تھا تو انہیں ہمیں بتانا چاہیے تھا، چوہدری شجاعت نے بہت واضح طور پر ان سے پوچھا تھا، انہیں بتانا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ اگر مونس الہٰی ان سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں تحفظات نہیں ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں