بلوچستان اسمبلی نے ریکوڈک مائننگ کمپنی اور اس کے شیئر ہولڈرز کے درمیان تنازعات کا فیصلہ کرنے سے متعلق 7 قوانین کے تحت سرمایہ کاری کے فروغ اور حوصلہ افزائی سمیت صوبائی ایگزیکٹو اتھارٹی وفاق کو سونپنے کے حوالے سے 2 آئینی قراردادیں منظور کر لیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دونوں قراردادیں اپوزیشن اراکین کی ہنگامہ آرائی کے دوران اکثریتی ووٹ سے منظور کرلی گئیں، اپوزیشن اراکین نے ان قراردادوں کو بلوچستان کے حقوق کے تحفظ کے لیے عدالت میں چیلنج کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ قراردادیں منظور کرنا ریکوڈک معاہدہ وفاق کو فروخت کرنے کے مترادف ہے۔

قائم مقام اسپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل کی زیر صدارت اسمبلی کا اجلاس اپنے مقررہ وقت سے ڈھائی گھنٹے بعد شروع ہوا۔

پارلیمانی سیکریٹری برائے قانون ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی نے وزیر معدنیات کی عدم موجودگی میں قرارداد پیش کی۔

ایک قرارداد میں کہا گیا کہ ایوان نے کچھ قوانین میں ترمیم کرنے کے اختیارات پارلیمنٹ کو دیے ہیں، دوسری قرارداد میں کہا گیا کہ حکومت بلوچستان نے بعض ایسے مخصوص امور کے حوالے سے اختیارات وفاقی حکومت کو تفویض کردیے ہیں جن تک صوبے کے اعلیٰ اختیارات (ایگزیکٹو اتھارٹی) کو وسعت حاصل ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی-ایم) سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن ارکان نے قراردادوں کی منظوری کے بعد احتجاج کیا۔

اسمبلی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن اراکین نے کہا کہ وہ قراردادوں کو عدالت میں چیلنج کریں گے اور ضرورت پڑنے پر احتجاجاً سڑکوں پر بھی آئیں گے۔

ملک نصیر احمد شاہوانی، اختر حسین لانگو، اصغر علی ترین اور عبدالواحد صدیقی سمیت اپوزیشن رہنماؤں نے کہا کہ حکومت نے عجلت میں اراکین اسمبلی کو گمراہ کر کے قانون سازی کی، ہم کسی کو بلوچستان کے حقوق کے معاملے پر سمجھوتہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ملک نصیر احمد شاہوانی نے کہا کہ ’ریکوڈک معاہدے پر بریفنگ میں اپوزیشن کا مؤقف تھا کہ صوبے کو 50 فیصد حصہ دیا جائے، گزشتہ شب اسمبلی اجلاس کا شیڈول اچانک تبدیل کر کے اجلاس طلب کرلیا گیا جبکہ ہمیں 4 بجے تک اجلاس ایجنڈا ہی فراہم نہیں کیا گیا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں