پارلیمنٹ تنہا کھڑی ہے، اس کے اختیارات ایگزیکٹو کے ذریعے غصب کیے گئے، رضا ربانی

14 دسمبر 2022
سینیٹر رضا ربانی حکومتی بنچوں کے ان چار سینیٹرز میں سے ایک تھے جنہوں نے ایوان میں بل کی مخالفت کی تھی— فائل فوٹو: ڈان
سینیٹر رضا ربانی حکومتی بنچوں کے ان چار سینیٹرز میں سے ایک تھے جنہوں نے ایوان میں بل کی مخالفت کی تھی— فائل فوٹو: ڈان

سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے ریکوڈک مائننگ پراجیکٹ کی سیٹلمنٹ ڈیل پر دستخط کی راہ ہموار کرنے والے فارن انویسٹمنٹ (پروموشن اینڈ پروٹیکشن) بل 2022 کی منظوری کی مخالفت کرتے ہوئے اس قانون کو 18ویں ترمیم کو واپس لینے کی کوشش قرار دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے مشاہدہ کیا کہ پارلیمنٹ تنہا کھڑی ہے کیونکہ اس کے اختیارات ایگزیکٹو کے ذریعے غصب کیے گئے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے ریمارکس دیے کہ 1973 کے آئین کے تحت طاقت کے تین اہم ستونوں میں ایک کے گرد دو اعضا کے ذریعے گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائر صدارتی ریفرنس نے طاقت کے تکون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے تصور کو بڑا دھچکا پہنچایا ہے۔

سپریم کورٹ کی رائے کے لیے بنائے گئے دو سوالات میں سے دوسرا غیر ملکی سرمایہ کاری (پروموشن اینڈ پروٹیکشن) بل 2022 سے متعلق تھا، جو ابھی تک وزارت قانون اور خزانہ کے ڈرائنگ بورڈ پر موجود تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بصد احترام یہ سمجھنا مشکل ہے کہ سپریم کورٹ نے آئین کے بارے میں رائے کیوں دی، یا ایک ایسے بل کے بارے میں رائے کیوں دی جو ابھی پارلیمنٹ میں پیش ہونا تھا اور 1973 کے آئین کے آرٹیکل 144 کے تحت اس پر دو صوبائی اسمبلیوں کی قراردادوں کی ضرورت تھی۔

انہوں نے نوٹ کیا کہ حکومت نے آرٹیکل 73 کے تحت اس عمل کو روک کر پارلیمنٹ کے قانون سازی کے حق کی خلاف ورزی کی ہے، جو ایوان کا بنیادی فرض، کام اور ذمہ داری ہے، سینیٹر نے مزید کہا کہ قانون سازی کا پورا طریقہ کار تبدیل کر دیا گیا ہے یعنی ایک بل ابھی بھی خام حالت میں ہے جسے وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے سامنے رکھا ہے جس نے عارضی طور پر اس کی آئینی حیثیت کی منظوری دی تھی اور اسے پارلیمنٹ کے ذریعے روند دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بل کا سیکشن 3 پارلیمنٹ کے حقوق کی مزید خلاف ورزی ہے کیونکہ بل کے تینوں شیڈول میں ترمیم وفاقی حکومت کے نوٹیفیکیشن کے ذریعے کی جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ماتحت قانون سازی کے ذریعے آرٹیکل 89 کی بدتر شکل پیدا کی گئی ہے کیونکہ ترامیم کے لیے کوئی ٹائم فریم نہیں ہے، میں سپریم کورٹ کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرسکتا کہ مذکورہ دفعہ 3 پارلیمنٹ کے اختیارات کی خلاف ورزی نہیں کرتی۔

رضا ربانی نے دعویٰ کیا کہ ماتحت قانون سازی کے ذریعے 18ویں آئینی ترمیم کو واپس لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

سینیٹر رضا ربانی حکومتی بنچوں کے ان چار سینیٹرز میں سے ایک تھے جنہوں نے ایوان میں بل کی مخالفت کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں