لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سرزنش کے باوجود سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ (این آئی آئی اے) کے تیسرے ’متنازع‘ رن وے کے لیے مزید زمین حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سی اے اے کے منصوبے سے ہوائی اڈے کے ارد گرد موجود زمین کے مالکان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی، جنہیں خدشہ تھا کہ ان کی آبائی زمین ’معمولی اور برائے نام‘قیمت کے عوض زبردستی چھین لی جائے گی، زمین مالکان کی جانب سے مطالبہ کیا کہ اگر ہماری زمین کا حصول انتہائی ناگزیر ہے تو سی اے اے ان کی زمین کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق قیمت ادا کرے۔

سی اے اے کی درخواست پر 2013 میں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1984 کا سیکشن 4 نافذ کیا گیا جس کے تحت مطلوبہ اراضی کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی گئی اور سی اے اے کے لیے زمین کی خریداری کے لیے ایک خاص شرح مقرر کی گئی، تاہم اہل علاقہ نے سی اے اے کی جانب سے مقررہ ریٹ مسترد کرتے ہوئے اپنی زمین فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔

دوسری جانب سی اے اے زمین کے حصول کے منصوبے پر عمل درآمد نہیں کرسکا اور اس نے اراضی مالکان کو رقم ادا نہیں کی جس کی وجہ سے وہ عدالت سے رجوع کرنے پر مجبور ہوئے۔

لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے زمین کے حصول سے متعلق دہائیوں پرانے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے گزشتہ ماہ کیس کا فیصلہ کیا اور سی اے اے کو ایک سال کے اندر نئے سرے سے زمین کے حصول کی اجازت دی۔

عدالت نے 1984 کے ایکٹ کے تحت جاری کردہ نوٹیفکیشن کو غیر قانونی، کالعدم، بد نیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ نوٹیفکیشن اپنے اجرا سے ہی غیر مؤثر ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ جس شخص کی زمین ناحق، زور زبردستی کے ساتھ بغیر معاوضہ کے چھین لی جائے یا غیر معینہ مدت کے لیے اسے اس کے قانونی حق کے استعمال سے محروم کردیا جائے تو اس شخص کے دکھ اور اذیت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، عدالت نے یہ ریمارکس 17 نومبر کو سنائے گئے اپنے حکم میں دیے۔

ترجمان سی اے اے نے ڈان کو بتایا کہ اتھارٹی نے 17-2016 میں تیسرے رن وے کی تعمیر کا منصوبہ بنایا اور اس کے مطابق مطلوبہ زمین کا نوٹی فکیشن جاری کیا گیا تاہم انہوں نے اتفاق کیا کہ زمین کے حصول کے طریقہ کار میں توقع وقت سے زیادہ وقت لگا۔

جب اس بات کی نشان دہی کی گئی کہ 100 ارب روپے سے زائد کی لاگت سے تعمیر ہونے والے ہوائی اڈے پر پہلے ہی 2 رن وے موجود ہیں جو 100 سال کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی بتائے جاتے ہیں جب کہ تیسرے رن وے پر اربوں روپے لاگت آئے گی جسے معاشی مشکلات میں گھرا ملک برداشت نہیں کر سکتا۔

سی اے اے عہدیدار نے کہا کہ دنیا میں کسی بھی رن وے کی زندگی 100 سال نہیں ہوتی لیکن منصوبہ بندی 100 سال کی ہی کی جاتی ہے، اسی تناظر میں اسلام آباد ایئر پورٹ کو مستقبل کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے جو وسطی ایشیائی جمہوریہ، افغانستان، چین اور پاکستان کے پورے شمالی حصے کی خدمت کے لیے مکمل طور پر تیار ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس اہمیت کے تناظر میں ہوائی اڈے کو پوزیشن دینے کے لیے، رن ویز کا ایئر سائیڈ انفرااسٹرکچر ضروری ہے، اس مرحلے پر زمین کا حصول ضروری ہے جب کہ مستقبل میں نہ صرف زمین کی قیمت آسمان کو چھوئے گی بلکہ اس کی دستیابی بھی ناممکن ہو جائے گی۔

میڈیا رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی کئی پروازوں کی بندش کے باعث دوسرے رن وے کی افادیت بھی کم ہو چکی جب کہ زیادہ تر فلائٹ آپریشن کے لیے پہلا رن وے استعمال کیا جا رہا ہے۔

تاہم ترجمان سی اے اے نے اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پی آئی اے کی پروازوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی جب کہ 2023 کی دوسری سہ ماہی سے برطانیہ اور یورپ کے لیے مزید پروازیں شروع ہونے کی توقع ہے، پی آئی اے کے ساتھ ساتھ عالمی ایئر لائنز کی مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے آپریشنز کے لیے تیسرے رن وے کی ضرورت ہے۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 2017 میں سی اے اے کو تیسرا رن وے بنانے سے روک دیا تھا، کیونکہ موجودہ 2 رن وے ہی مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں، تاہم، سی اے اے اہلکار نے کہا کہ ایسا کوئی حکم نہیں تھا۔

علاقے میں موجود زمین کے مالکان کے مطابق سی اے اے انہیں ان کی زمین کے بدلے مارکیٹ ریٹ نہیں دے سکے گا جو کہ کچھ مقامات پر 50 لاکھ روپے فی کنال تک پہنچ چکا ہے۔

اس سے معلق ترجمان سی اے اے نے کہا کہ زمین کے ریٹ کا تعین سی اے اے کے دائرہ کار میں نہیں، حصول اراضی کے قانون میں طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ریٹ طے کرنا محکمہ ریونیو کا کام ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں