پرویز الہٰی اور پی ڈی ایم میں اتحاد کا خوف، پی ٹی آئی کی (ق) لیگ سے مذاکرات کیلئے کمیٹی تشکیل

اپ ڈیٹ 20 دسمبر 2022
مسلم لیگ (ق) نے ابتدائی طور پر پنجاب میں 25 سے 30 نشستوں کا مطالبہ کیا تھا — فائل فوٹو: ٹوئٹر
مسلم لیگ (ق) نے ابتدائی طور پر پنجاب میں 25 سے 30 نشستوں کا مطالبہ کیا تھا — فائل فوٹو: ٹوئٹر

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ساتھ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کے ممکنہ اتحاد کے خوف سے پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں کے مطالبات منظور کرنے پر سنجیدگی سے غور شروع کرتے ہوئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر سنجیدہ بات چیت کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور میں غیر ملکی صحافیوں سے ملاقات کے دوران سابق وزیر اعظم نے کہا کہ مسلم لیگ (ق) ایک آزاد جماعت ہے اور کسی سے بھی مشاورت کرنے کے لیے آزاد ہے۔

عمران خان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ان سے سوال کیا گیا کہ حکمراں اتحاد پی ڈی ایم، پرویز الہٰی کو اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملانے اور وزیر اعلیٰ کے طور پر ان کا امیدوار بننے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان آئندہ انتخابات کے لیے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے مذاکرات اور بات چیت جاری ہے جب کہ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا ہے کہ پرویز الہٰی اگلے عام انتخابات میں اتحادی جماعت کے لیے بڑی تعداد میں نشستیں حاصل کرنے کے لیے جارحانہ رویہ دکھا رہے ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ق) نے ابتدائی طور پر نئے بنائے گئے گجرات ڈویژن، جنوبی پنجاب کے کچھ حصوں اور سیالکوٹ میں 25 سے 30 نشستوں کا مطالبہ کیا تھا۔

پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ تحریک انصاف نے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں 3 رکنی کمیٹی کو مسلم لیگ (ق) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بات چیت کرنے کا ٹاسک سونپا ہے۔

واضح رہے کہ پرویز الہٰی نے پی ٹی آئی چیئرمین پر واضح کیا تھا کہ وہ صرف پی ٹی آئی سیکریٹری جنرل اسد عمر، سابق وزیر دفاع پرویز خٹک اور اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان پر مشتمل کمیٹی سے مذاکرات کریں گے۔

اگرچہ پرویز الہٰی، پی ٹی آئی چیئرمین کو پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کا دستخط شدہ لیٹر دے چکے لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ موجودہ سخت معاشی بحران کے دوران فوجی اسٹیبلشمنٹ اسمبلیاں تحلیل نہیں کرنا چاہتی۔

ذرائع نے کہا کہ پرویز الہٰی کے اس بیان سے اسٹیبلشمنٹ کے اس مؤقف کی واضح طور پر تردید اور نفی ہوتی کہ وہ غیر سیاسی اور غیر جانبدار ہو چکی ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں نگراں سیٹ اَپ قائم کرنا وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی اور اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کے ہاتھ میں ہوگا اور اس صورت میں پی ٹی آئی مکمل طور پر اس عمل سے باہر ہوجائے گی۔

سیاسی پیش رفت پر نظر رکھنے والے قریبی ذرائع نے ڈان کو بتایا اگر پرویز الہٰی اور حمزہ شہباز دونوں نگراں سیٹ اَپ پر متفق نہیں ہوتے تو گیند الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کورٹ میں جائے گی جس پر پی ٹی آئی مبینہ طور پر پی ڈی ایم حکومت کا ساتھ دینے کا الزام عائد کرتی ہے جو پنجاب کے حکمراں اتحاد کو اس کھیل سے باہر رکھے گا۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا پی ڈی ایم کے ساتھ پرویز الہٰی کے اتحاد کے خوف سے پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں کے مطالبات منظور کرنے پر غور کر رہی ہے اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر سنجیدہ بات چیت شروع کرنا چاہتی ہے۔

ذرائع نے مزید کہا کہ پرویز الہٰی نے یہ بھی کہا کہ اسٹیبلشمنٹ یہ بھی سوچ رہی ہے کہ موجودہ حکومت ایک سال کے لیے ’معاشی ایمرجنسی‘ نافذ کر سکتی ہے جس سے انتخابات 2023 سے تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں۔

پی ٹی آئی چیئرمین بھی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے گرین سگنل کے منتظر ہیں جب کہ انہوں نے ایک ملاقات کے دوران میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ انہوں نے اسمبلیوں کی تحلیل کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی تاکہ صاحب اختیار لوگ اس صورتحال میں کوئی قابل عمل لائحہ عمل تیار کریں۔

صدر عارف علوی اور وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے درمیان بیک ڈور چینل بات چیت کے بارے میں سوال پر پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ انہیں امید نہیں ہے کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں قبل از وقت عام انتخابات کی تاریخ طے ہوسکتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ پی ڈی ایم حکومت قبل از وقت عام انتخابات کرانا نہیں چاہتی۔

تبصرے (0) بند ہیں