انٹیلی جنس ایجنسی کی تازہ رپورٹ میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی مطلوبہ صلاحیت کے فقدان کا انکشاف کیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ انکشاف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب خیبر پختونخوا میں دہشت گردی سر اٹھا رہی ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محکمہ انسداد دہشتگردی خیبرپختونخوا اپنے بجٹ کا 4 فیصد سے بھی کم انتظامی امور پر خرچ کرتا ہے۔

قومی سلامتی کمیٹی کے حالیہ اجلاس کے دوران پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں امن و امان کی فضا دیگر صوبوں کے مقابلے میں انتہائی غیر مستحکم ہے۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ گزشتہ ایک برس کے دوران پنجاب میں دہشت گردی کے 5 واقعات ہوئے جن میں 3 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 30 افراد زخمی ہوئے۔

اس کے برعکس اسی عرصے کے دوران خیبرپختونخوا میں اس طرح کے 704 واقعات رونما ہوئے، جن میں 305 افراد جاں بحق اور 689 افراد زخمی ہوئے جبکہ سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 93 دہشت گرد مارے گئے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ دہشت گردی میں اضافے کے باوجود حکومتِ خیبرپختونخوا نے محکمہ انسداد دہشت گردی کی استعداد کار میں اضافے پر توجہ نہیں دی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ خیبرپختونخوا کے محکمہ انسداد دہشتگردی کا تنخواہوں سمیت 2 ارب 18 کروڑ کا بجٹ پنجاب کے محکمہ انسداد دہشتگردی کے 4 ارب 70 کروڑ روپے کے بجٹ کے نصف سے بھی کم ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بجٹ کا 96 فیصد تنخواہ اور الاؤنسز میں خرچ ہوتا ہے، بقیہ 4 فیصد سے بھی کم (80 لاکھ روپے) انتظامی معاملات کے لیے مختص ہیں جبکہ پنجاب میں یہ رقم 27 کروڑ 60 لاکھ روپے ہے۔

رپورٹ کے مطابق صوبوں میں تنخواہ اور الاؤنس سب سے کم ہونے کے باوجود متعلقہ سازوسامان کی خریداری کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی، محکمہ انسداد دہشتگردی خیبرپختونخوا میں انعامی رقم 7 کروڑ روپے تھی جبکہ پنجاب میں یہ ساڑھے 47 کروڑ روپے ہے۔

رپورٹ کے مطابق محکمہ انسداد دہشتگردی خیبرپختونخوا میں تمام صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ عملہ تعینات ہے لیکن بیشتر عملہ مطلوبہ وسائلا ور تربیت سے محروم ہے۔

رپورٹ میں مزید نشاندہی کی گئی کہ حکومتِ خیبرپختونخوا نے کوئی تربیتی ادارہ قائم نہیں کیا اور نہ ہی اس کی منصوبہ بندی کی، پنجاب میں ریٹائرڈ ایس ایس جی افسران کی زیر نگرانی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں اس طرح کے اقدامات کا فقدان ہے۔

انفرااسٹرکچر کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ بنوں میں ایک ہیڈکوارٹر سمیت 4 علاقائی ہیڈکوارٹر کئی برسوں سے زیر تعمیر ہیں جبکہ کئی دیگر کی تعمیر پر بھی بیوروکریسی کی رکاوٹوں کی وجہ سے کام شروع نہیں ہوا۔

رپورٹ کے مطابق محکمہ انسداد دہشتگردی پنجاب کے پاس سائبر سیکیورٹی کے لیے جدید ترین انتظام موجود ہے جبکہ خیبرپختونخوا کے پاس ایسا کوئی انتظام نہیں ہے جوکہ انتہائی ضروری تکنیکی آلات سے بھی محروم ہے۔

محکمہ انسداد دہشتگردی خیبرپختونخوا کے پاس سفر کے لیے صرف 448 سوارایاں ہیں جن میں سے 361 موٹر سائیکلیں ہیں جبکہ پنجاب میں یہ تعداد ایک ہزار 466 ہے۔

مجرمانہ غفلت دہشت گردوں کی مدد کے مترادف ہے، رانا ثنا اللہ

دریں اثنا وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے محکمہ انسداد دہشت گردی خیبرپختونخوا کے بارے میں تازہ رپورٹ کو چشم کشا اور پریشان کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک برس میں پختونخوامیں دہشت گردی کے300 واقعات کا ہونا سنگین صورتحال ہے لیکن پی ٹی آئی حکومت سوئی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو صورتحال پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے اور زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ سے زیادہ اپنے صوبے میں وقت گزارنا چاہیے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وفاقی حکومت نے خیبرپختونخوا میں محکمہ انسداد دہشتگردی اور پولیس کی استعداد کار میں اضافے کے لیے مدد کی پیشکش کی تھی لیکن افسوس ہے کہ ابھی تک جواب نہیں دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے میں عمران خان اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی جانب سے ’مجرمانہ غفلت‘ دہشت گردوں کی مدد کے مترادف ہے۔

خیبرپختونخوا میں محکمہ انسداد دہشتگردی کی تباہ کن صورتحال کا ذمہ دار عمران خان کو ٹھہراتے ہوئے رانا ثںا اللہ نے مشورہ دیا کہ وہ وفاق اور اداروں پر حملے کی بجائے دہشت گردی کے خلاف جنگ پر توجہ دیں۔

تبصرے (0) بند ہیں