افغانستان: خواتین عملے پرپابندی، فلاحی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام کا اجلاس طلب

25 دسمبر 2022
اقوام متحدہ نے وزارت اقتصادیات کی جانب سے اس پابندی کی مذمت کی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
اقوام متحدہ نے وزارت اقتصادیات کی جانب سے اس پابندی کی مذمت کی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

افغان طالبان کی جانب سے فلاحی تنظیموں میں خواتین کے کام کرنے پر پابندی کے بعد آئندہ لائحہ عمل طے کرنے کے لیے اقوام متحدہ اور افغانستان میں کام کرنے والی درجنوں فلاحی تنظیموں (این جی اوز) کے اعلیٰ حکام کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔

طالبان انتظامیہ نے گزشتہ روز دھمکی دی تھی کہ اگر حکم نامے پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو این جی اوز کے آپریٹنگ لائسنس معطل کر دیے جائیں گے۔

ترجمان وزارت اقتصادیات عبدالرحمٰن حبیب نے کہا تھا کہ خواتین کے لباس سے متعلق ’اسلامی قوانین‘ پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے تمام افغان خواتین اگلے نوٹس تک کام نہیں کرسکتیں۔

اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور کے پبلک انفارمیشن آفیسر نے بتایا کہ ’انسانی ہمدردی کی کنٹری ٹیم (ایچ سی ٹی) کا آج ایک اجلاس طے ہے جس میں اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا‘۔

ایچ سی ٹی میں اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام اور درجنوں افغان اور عالمی فلاحی تنظیموں کے نمائندے شامل ہیں جو ملک بھر میں امداد تقسیم کرتے ہیں۔

چند فلاحی تنظیموں کے عہدیداروں نے بتایا کہ اجلاس میں اس بات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا کہ طالبان کی تازہ ترین ہدایت کے بعد تمام امدادی سرگرمیوں کو معطل کیا جائے یا نہیں۔

اقوام متحدہ نے وزارت اقتصادیات کی جانب سے اس پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ طالبان سے اس حکم کے بارے میں وضاحت طلب کی جائے گی۔

اقوام متحدہ نے کہا کہ افغان طالبان کی جانب ملک میں خواتین کی تعلیم اور کام کرنے سے روکنا افغانستان کو پیچھے دھکیل دے گا جس سے ملک میں امن یا استحکام کی بامعنیٰ کوششوں کو خطرہ لاحق ہوگا۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ یہ پابندی افغان عوام کے لیے تباہ کن ہو گی کیونکہ اس سے لاکھوں لوگوں کے لیے امدادی سرگرمیوں میں خلل پڑے گا۔

خیال رہے کہ یہ پابندی ایک ایسے وقت میں لگائی گئی ہے جب ملک بھر میں لاکھوں افراد فلاحی تنظیموں کے ایک وسیع نیٹ ورک کے ذریعے بین الاقوامی عطیہ دہندگان کی جانب سے فراہم کی جانے والی انسانی امداد پر انحصار کرررہے ہیں۔

گزشتہ سال اگست میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان کا معاشی بحران مزید شدت اختیار کر گیا، امریکا نے افغانستان کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے اور غیر ملکی امداد دہندگان نے امداد بھی روک دی۔

واضح رہے کہ اس سے قبل افغان طالبان نے خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر بھی پابندی عائد کردی تھی جس کے بعد عالمی سطح پر شدید مذمت کی گئی اور افغانستان میں بھی اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا گیا۔

اقتدار میں واپسی کے بعد سے طالبان نے نوعمر لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول جانے پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔

خواتین پر بیشتر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کردیے گئے ہیں، انہیں کسی مرد رشتہ دار کے بغیر سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے اور گھر سے باہر شرعی پردے کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں