اسلام آباد میں ہونے والے خودکش بم دھماکے کی تحقیقات کرنے والے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ جس روز دھماکا ہوا، مشتبہ دہشت گرد اسی روز صوبہ خیبرپختونخوا سے مسافر بس کے ذریعے اسلام آباد پہنچا تھا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق تحقیقاتی ذرائع نے بتایا کہ تفتیش کاروں نے کرک، پیرودھائی اور آئی 4/10 میں ایک ہی شخص کی موجودگی کاانکشاف کیا ہے اور شبہ ظاہر کیا ہے کہ وہی شخص خود کش بمبار ہوسکتا ہے۔

مشتبہ شخص پہلے پیرودھائی بس ٹرمینل میں دیکھا گیا اور پھر جیو فینسنگ کے ذریعے آئی ٹن/4 کے علاقے میں موجودگی کا انکشاف ہوا۔

تفتیش کاروں کو یہ بھی معلوم ہوا کہ پیر ودھائی بس ٹرمینل میں مشتبہ شخص کی موجودگی اور کرک سے ایک مسافر گاڑی کی وہاں آمد جیسے واقعات اتفاقیہ تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ اب تک اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ مشتبہ شخص کی بس ٹرمینل پر کسی سے ملاقات ہوئی تھی یا نہیں۔

لیکن اس بات کا امکان ہے کہ مشتبہ شخص بارودی مواد اور خودکش جیکٹ کے ساتھ سفر کررہا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ مشتبہ دہشت گرد جب پیرودھائی پہنچا تو اس نے موبائل فون کے ذریعے نمبر ملایا اور کسی دوسرے شخص کے ساتھ رابطے میں تھا۔

اب تک کی گئی تحقیقات سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ مشتبہ دہشت گرد نے چیکٹ پہن رکھی تھی یا جب دھماکا ہوا تو اس نے جیکٹ کو پکڑا ہوا تھا کیونکہ اس کے جسم کا کوئی حصہ بھی دھماکے کی وجہ سے باقی نہیں بچا۔

ذرائع نے بتایا کہ جائے وقوع سے دیگر انسانی اعضا کے ساتھ ہاتھوں کی انگلیاں، پھیپھڑے اور ایک ہڈی ملی ہے اور امکان ہے کہ یہ تمام اعضا دہشت گرد کے ہوسکتے ہیں،انسانی باقیات کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جا رہا ہے۔

اسی دوران پولیس افسران کا کہنا ہے کہ تمام غیر ملکی رہائیشیوں کے ہوٹلز کے اطراف سیکیورٹی مزید سخت کردی گئی ہے، پولیس اور نیم فوجی دستے بھی تعینات کردیے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ ہوٹلوں کے قریب سڑکوں پر بنکر اور پولیس اہلکاروں کی گاڑیاں کھڑی کردی گئی ہیں، پولیس اہلکار افراد اور گاڑیوں کی فزیکل چیکنگ بھی کر رہے تھے۔

23 دسمبر کو ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور مقامی حکام کی جانب سے جاری کردہ تھریٹ الرٹ جاری کرنے کے بعد دارالحکومت میں غیر ملکیوں کو سیکیورٹی الرٹ اور ایڈوائزری جاری کردی گئی ہے۔

افسران نے بتایا کہ کچھ مغربی، یورپی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے سیکیورٹی عملے نے متعلقہ افسران سے ملاقات کی تھی جن میں متعلقہ سینئر پولیس افسران بھی شامل تھے تاکہ صورتحال کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں۔

تبصرے (0) بند ہیں