وزارت خزانہ نے ملکی معیشت کو درپیش سنگین صورتحال کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے پیش گوئی کی ہے کہ رواں مالی سال کے دوران مہنگائی کی شرح 21 سے 23 فیصد کے درمیان برقرار رہے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ نے اپنے ’ماہانہ اقتصادی اپ ڈیٹ اور آؤٹ لک‘ میں کہا کہ مالی سال 2023 میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کے سبب معاشی ترقی کا بجٹ طے شدہ ہدف سے کم رہنے کا خدشہ ہے’۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’کم شرح نمو، مہنگائی کی بلند شرح اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی پالیسی سازوں کے لیے کلیدی چیلنجز میں شامل ہے‘۔

وزارت خزانہ کے اکنامک ایڈوائزر ونگ کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جولائی تا اکتوبر 23-2022 کے دوران مجموعی مالیاتی خسارہ 1.5 فیصد (ایک کھرب 266 ارب) رہا جوکہ گزشتہ مالی سال کے دوران جی ڈی پی کا 0.9 فیصد (587 ارب) تھا۔

رپورٹ کے مطابق مالیاتی بگاڑ زیادہ مارک اپ ادائیگیوں کے سبب اخراجات میں اضافے کی وجہ سے ہوا، اس دوران حکومت سیلاب زدہ علاقوں میں لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے کے شدید چیلنج کا بھی سامنا کررہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ رواں مالی سال کے پہلے 5ماہ (جولائی تا نومبر) کے دوران کنزیومر پرائس انڈیکس کی اوسط 25.1 فیصد رہی جو گزشتہ برس کی اس مدت کے دوران 9.3 فیصد تھی، خدشہ ہے کہ رواں سال یہ شرح 21 سے 23 فیصد کے درمیان رہے گی۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جولائی تا نومبر کے دوران 3 ارب 10 کروڑ ڈالر رہا جو گزشتہ برس اسی مدت کے دوران 7 ارب 20 کروڑ ڈالر تھا، اس کی بنیادی وجہ تجارتی توازن میں بہتری ہے، نومبر میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گھٹ کر 27 کروڑ 60 لاکھ ڈالر رہ گیا جو اکتوبر میں 56 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تھا۔

صنعتی شعبے میں تنزلی کے رجحان کا اعتراف

وزارت خزانہ نے اپنی رپورٹ میں صنعتی شعبے میں تنزلی کے رجحان کو تسلیم کیا، صنعتی سرگرمی، بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) انڈیکس کی پیمائش کے مطابق پیداوار اکتوبر میں توقع سے کچھ کم رہی کیونکہ اس شعبے پر بیرونی حالات سب سے زیادہ اثر انداز ہوئے۔

بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ میں کمی کا تعلق کئی عوامل سے ہے، پاکستان کے اہم تجارتی شراکت داروں میں پیداوار کا فرق منفی رہا اور وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج وسیع ہوتا رہا ہے جس کا مطلب عالمی سطح پر طلب میں کمی ہے۔

دوسری وجہ سیلاب کی وجہ سے زرعی پیداوار کی تباہی کے صنعتی شعبوں پر اثرات ہیں، تیسری وجہ پاکستان کے سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر نسبتاً کم سطح پر ہیں جس کی وجہ سے درآمدات محدود کرنے کے لیے محدود مانیٹری پالیسی اور دیگر اقدامات ضروری ہیں۔

ادائیگیوں کے توازن کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اکتوبر کے مقابلے میں نومبر میں اشیا اور خدمات کی برآمدات میں تقریباً 1.9 فیصد اضافہ ہوا، برآمدات اب تقریباً 2.9 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں اور آنے والے مہینوں میں مزید بڑھ کر 3 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے، تاہم سالانہ بنیادوں پر برآمدات میں 12.7 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

درآمدات میں کمی

نومبر کے ’بیلنس آف پیمنٹس‘ کے اعداد و شمار کے مطابق اشیا اور خدمات کی درآمدات میں ماہانہ بنیادوں پر 5.9 فیصد اور سالانہ بنیادوں پر 32 فیصد کی بڑی کمی واقع ہوئی۔

ملکی سطح پر محدود طلب اور بلند شرح سود کے اثرات مشینری، ٹرانسپورٹ، ٹیکسٹائل، زراعت اور دیگر شعبوں کے لیے درکار کیمیکلز اور دھاتی گروپوں کی کم درآمدات میں ظاہر ہوتے ہیں، خدشہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں درآمدات بتدریج مزید نچلی سطح پر آ جائیں گی۔

توقع ہے کہ بین الاقوامی اجناس کی قیمتوں میں استحکام کے رجحان کے ساتھ آنے والے مہینوں میں تجارتی خسارے میں مزید بہتری آئے گی اور رواں مالی سال کی دوسری ششماہی میں نمایاں طور پر نچلی سطح پر ٹھہر جائے گی۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے پانی کھڑا رہنے سے گندم کی بوائی کا مقررہ ہدف حاصل کرنے میں مشکلات ہو سکتی ہیں تاہم وفاقی اور صوبائی حکومتیں گندم کی پیداوار بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں اور سخت محنت کررہی ہیں۔

کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) میں بروقت اضافے کے علاوہ حکومت نے گندم کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے بیداری مہم، توسیعی خدمات، سبسڈی اور معیاری اشیا (بیج اور کھاد) کی فراہمی وغیرہ جیسے کئی اقدامات کیے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں