اسلام آباد میں آج بلدیاتی انتخابات کرانے کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل دائر

اپ ڈیٹ 31 دسمبر 2022
وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دُگل نے اپیل دائر کی—فائل فوٹو: اے پی
وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دُگل نے اپیل دائر کی—فائل فوٹو: اے پی

وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن نے آج اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے گزشتہ روز کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کردی ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دُگل نے اپیل دائر کی جس میں علی نواز اعوان، الیکشن کمیشن، چیف کمشنر اور میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد (ایم سی آئی)کو فریق بنایا گیا۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ قانون اور حقائق پر پورا نہیں اترتا، ایک رکنی بینچ نے شام 5 بجے حکم دیا کہ اگلے روز انتخابات کروائے جائیں، وقت کی کمی کے باعث سنگل رکنی بینچ کے فیصلے پر عملدرآمد ناممکن تھا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سنگل رکنی بینچ نے معاملے کے حقائق اور قانونی پہلوؤں کو مدنظر نہ رکھتے ہوئے فیصلہ سنایا، الیکشن کمیشن کی آئینی حیثیت کو بھی ملحوظ خاطر نہ رکھا گیا، الیکشن کمیشن ایگزیکٹو نہیں بلکہ ایک آئینی ادارہ ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ سنگل رکنی بینچ نے حکومت کو اپنا جواب جمع کرانے کیلئے مناسب وقت نہیں دیا، فیصلہ قانون اور حقائق کی غلط تشریح پر مبنی ہے اور برقرار رکھنے کے قابل نہیں ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ انٹرا کورٹ اپیل پر حتمی فیصلہ آنے تک گزشتہ روز کا سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کیا جائے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر درخواست

دریں اثنا الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر اپیل میں رہنما جماعت اسلامی میاں اسلم اور علی نواز اعوان کو فریق بنایا گیا ہے، الیکشن میں معاونت کے لیے سیکریٹری داخلہ کو لکھا گیا خط بھی انٹراکورٹ اپیل کا حصہ بنایا گیا ہے۔

اپیل میں سنگل بینچ کا 30 دسمبر (گزشتہ روز) کا حکم نامہ معطل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا کہ بے شمار وجوہات کے سبب آج الیکشن کا انعقاد ممکن ہی نہیں تھا، بیلٹ پیپرز چھپوائی کے بعد پرنٹنگ کارپوریشن میں موجود تھے جنہیں 14ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں پہنچانا تھا۔

درخواست میں کہا گیا کہ 23 دسمبر کو ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے 31 دسمبر کو الیکشن کرانے کا حکم معطل کردیا تھا جس کی وجہ سے انتخابات کے لیے درکار 23 دسمبر سے 31 دسمبر تک ہونے والی سرگرمیاں مکمل نہ ہو سکیں۔

اپیل میں بتایا گیا کہ 14 ہزارسے زائد تربیت یافتہ عملے کو الیکشن ڈیوٹی کے فرائض سرانجام دینا تھے، میٹروپولیٹن شہر ہونے کی وجہ سے عملے میں شامل ملازمین کا تعلق تمام صوبوں سے ہے، انتخابات کے التوا اور موسم سرما کی تعطیلات کی وجہ سے وہ اپنے آبائی شہروں کو لوٹ گئے تھے، اپنے اپنے پولنگ اسٹیشنز پر واپس بلانے کے لیے انہیں کم از کم 24 گھنٹے درکار ہوں گے، ان کی جگہ غیر تربیت یافتہ عملے کی تعیناتی خطرے کا باعث ہوگی۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ ریٹرنگ افسران کو بیلٹ پیپرز کی وصولی سے تقسیم تک مختلف اقدامات کرنا ہوتے ہیں، مقامی انتظامیہ کو انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنز پر سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب کرنا تھے، یہ عمل انتخابات سے ایک روز قبل ہونا تھا لیکن التوا کے سبب یہ بھی ممکن نہ ہوسکا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے انٹرا کورٹ اپیل پر آج ہی سماعت کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا کہ موجودہ صورتحال میں آج انتخابات کا انعقاد ممکن ہی نہیں تھا لہٰذا ایک رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

الیکشن کمیشن نے توہین عدالت کا ارتکاب کیا، پی ٹی آئی

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دعویٰ کیا ہے کہ اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے لیے لوگ پولنگ اسٹیشنز پہنچنا شروع ہوگئے ہیں تاہم الیکشن کمیشن کا عملہ نہیں پہنچ سکا۔

پی ٹی آئی اسلام آباد کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی گئی ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ’عدالتی حکم کے بعد لوگ پولنگ سٹیشنز کے باہر اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے موجود ہیں لیکن الیکشن کمیشن کا عملہ نہ آیا، عدالت کے حکم کو اِس الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت نے رد کردیا‘۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ آج اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد نہ کر کے الیکشن کمیشن نے ایک بار پھر ظاہر کر دیا کہ یہ امپورٹڈ حکومت اور اس کے حامیوں کی بی ٹیم ہے۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ’عوام سے خوفزدہ پی ڈی ایم تمام انتخابات سے بھاگ رہی ہے، ووٹ کا حق ایک بنیادی جمہوری اصول ہے اور پی ٹی آئی اس پر کاربند ہے‘۔

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ ’اسلام آباد میں ووٹر پولنگ اسٹیشن کے باہر کھڑے ہیں لیکن عدالت کے واضع احکامات کے باوجود انتخابات روک دیے گئے ہیں‘۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ’ووٹ سے خوفزدہ حکومت اپنے کٹھ پتلی الیکشن کمشنر کے ساتھ مل کر عوام اور آئین کا مذاق اڑا رہی ہے، عدالت اپنے فیصلے پر عملدرآمد کروائے اور توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔

پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن کے تعصب کے بارے میں رتی برابر بھی شک رہ گیا تھا تو وہ بھی آج ختم ہوگیا کیونکہ الیکشن کمیشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود بلدیاتی انتخابات کے لیے پولنگ کی اجازت نہ دے کر بدمعاشوں اور سازشیوں کو خوش کر کے توہین عدالت کا ارتکاب کیا ہے۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں مطالبہ کیا کہ الیکشن کے انعقاد کے معاملے پر سیاست کھیلنے پر الیکشن کمیشن انتظامیہ کو فوری استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

قبل ازیں جنرل سیکریٹری پی ٹی آئی اسد عمر نے ایک ویڈیو پیغام میں دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کی ٹیمیں اور ووٹرز صبح سے پولنگ اسٹیشنز کے باہر موجود تھیں لیکن انتخابی عملہ غائب ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ امپوڑڈ حکومت لوگوں سے خوفزدہ ہے، جہاں بھی الیکشن ہوتا ہے یہ وہاں سے بہانے بنا کر بھاگتے ہیں۔

انٹراکورٹ اپیل دائر کردی، عدالتی حکم پر عمل کریں گے، طارق فضل چوہدری

دوسری جانب رہنما مسلم لیگ (ن) طارق فضل چوہدری کا کہنا ہے کہ عدالت نے اسلام آباد بلدیاتی انتخابات آج کرانے کا حکم دیا تھا، عدالت کا احترام کرتے ہیں لیکن ایک رات میں انتظامات ممکن نہیں۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انتظامی طور پر ممکن نہیں تھا کہ ایک دن کے اندر اسلام آباد کے بلدیاتی الیکشن کا انعقاد کیا جائے اسی لیے آج انتخابات نہیں ہوسکے، عدالتی فیصلے کا احترام کرتے ہیں، آج وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹر کورٹ اپیل دائر کردی ہے، آگے جو عدالت کا حکم ہوگا اس پر ہم عمل کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ جھوٹے اور منفی پروپگینڈا جعلی سازوں کی جماعت پی ٹی آئی کی جانب سے ہوا، ان کی سیاست فریب اور جھوٹ پر مبنی ہے، میرا سوال ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں کروائے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری

دریں اسلام آباد میں آج بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کا گیارہ صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے۔

جسٹس ارباب محمد طاہر کی جانب سے جاری کردہ فیصلے میں الیکشن کمیشن کو شیڈول کے مطابق 31 دسمبر کو الیکشن کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا کہ لوکل باڈی سسٹم یقینی بنانا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری ہے، آئینی دفعات سے نہ کوئی فرار ممکن ہے نہ اس پر کوئی رعایت دی جا سکتی ہے،

فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن انتخابی شیڈیول کا اعلان کر چکا تھا مگر 12 دن پہلے یونین کونسلز کی تعداد بڑھا دی گئی، یونین کونسلز کی تعداد بڑھانے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتائی گئی، نہ حکومت کا دو ٹوک موقف آیا، واضح ہدایات کے باجود حکومت کی جانب سے بلیک اینڈ وائٹ میں کوئی رسپانس سامنے نہیں آیا، واضح جواب سامنے نہ آنے پر یہی سمجھا گیا کہ حکومت کے پاس بتانے کو کوئی وجہ نہیں۔

تفصیلی فیصلے کے مطابق یونین کونسلز کی تعداد بڑھانے کا نوٹیفکیشن آبادی کے غیر تصدیق شُدہ اعداد و شمار پر جاری کیا گیا، وضاحت موجود نہیں کہ نئی مردم شماری نہیں ہوئی تو آبادی بڑھنے کا اندازہ کیسے لگایا گیا،

فیصلے میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت کا کنڈکٹ قانون سے متصادم دکھائی دیتا ہے، عدالتیں آئین کے ساتھ الیکشن کمیشن کے ادارہ جاتی تقاضوں کے تحفظ کی پابند ہیں، وفاقی یا صوبائی حکومت کا اتھارٹی سے تجاوز کر کے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو بے اختیار کرنا آرٹیکل 140 اے کی خلاف ورزی ہے، حکومتوں کے ایسے اقدامات عدالتوں سے کالعدم قرار دیے جانے کے لائق ہیں۔

پس منظر

واضح رہے کہ اسلام آباد میں انتخابات 31 دسمبر کو طے تھے لیکن رواں ماہ حکومت نے اسلام آباد میں یونین کونسلز کی تعداد 101 سے بڑھا کر 125 کر دی تھی، بعدازاں 21 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے واضح کردیا تھا کہ انتخابات شیڈول کے مطابق 31 دسمبر کو ہی ہوں گے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں، 23 دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے یونین کونسلز بڑھانے کا حکومتی فیصلہ مسترد کرنے کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تمام فریقین کو سن کر دوبارہ فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن 27 دسمبر کو یونین کونسلز کی تعداد بڑھانے سے متعلق فریقین کو سن کر فیصلہ کرے۔

27 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے اسلام آباد میں 31 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات ملتوی کردیے تھے، بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے پر عدالت کو مطمئن کرنے کی ہدایت کردی۔

گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات 31 دسمبر کو (آج) ہی کروانے کا حکم دے دیا تھا۔

تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے برعکس الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد میں آج بلدیاتی انتخابات کروانے سے معذرت کرلی تھی۔

الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ اتنے مختصر نوٹس پر محض اسلام آباد میں الیکشن کا انعقاد بھی عملاً ناممکن ہے، انتخابات کے لیے درکار سازوسامان منتقل کرنے کے لیے لاجسٹک انتظامات نہیں ہیں اور نہ ہی پولنگ عملہ دستیاب ہے، ریٹرننگ افسران موجود بھی ہوں تو فی الحال سیکیورٹی انتظامات بھی نہیں ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں