متنازع ٹوئٹ کیس: سینیٹر اعظم سواتی کی ضمانت منظور

اپ ڈیٹ 02 جنوری 2023
27 نومبر کو اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر ایف آئی اے نے گرفتار کیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
27 نومبر کو اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر ایف آئی اے نے گرفتار کیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے متنازع ٹوئٹ کیس میں گرفتار پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر اعظم سواتی کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے 2 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض پی ٹی آئی سینیٹر کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری منظور کی ہے۔

قبل ازیں بابر اعوان کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت عالیہ نے اعظم سواتی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

27 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے نے گرفتار کیا تھا، ٹرائل کورٹ نے 21 دسمبر کو اعظم سواتی کی درخواست ضمانت مسترد کر دی تھی۔

اس سے قبل بھی انہیں 12 اکتوبر کو آرمی چیف کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا، ٹرائل کورٹ نے 21 دسمبر کو اعظم سواتی کی درخواست ضمانت مسترد کر دی تھی جس کے بعد انہوں نے اسلام آباد ہائھی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

سماعت کے دوران سینیٹر اعظم سواتی کے وکیل بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے جب کہ اسپیشل پراسیکیوٹر عدالت میں پیش نہیں ہوئے، بابر اعوان ایڈووکیٹ نے کہا کہ اعظم سواتی کے صاحبزادے عدالت کے سامنے اپنا مؤقف رکھنا چاہتے ہیں۔

سینیٹر اعظم سواتی کے صاحبزادے نے کہا کہ میرے والد نے جیل سے ایک خط لکھا تھا، کیس کسی اور بینچ کو بھیج دیں، میں عدالت کی اجازت سے خط پڑھنا چاہتا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ خط عدالت کے سامنے موجود ہے، اس معاملے پر لارجر بینچ تشکیل دیں گے، اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے طے کرنا چاہتے ہیں، خط آجاتا ہے کہ جج جانبدار ہے، اس معاملے کو طے کرنے کے لیے لارجر بینچ تشکیل دے رہے ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اس قسم کے خطوط عدالت عمومی طور پر نہیں دیکھتی، بابر اعوان ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت آج ہی اس معاملے کو دیکھ لے، چیف جسٹس نے کہا کہ آج ہی لارجر بینچ کی تشکیل ممکن نہیں، سینئر ججز ابھی چھٹی پر ہیں آئندہ ہفتے کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیں گے۔

بابر اعوان ایڈووکیٹ نے کہا کہ اعظم سواتی کے صاحبزادے سے میں نے درخواست کی ہے وہ یہ خط واپس لے لیتے ہیں، اس موقع پر وکلا کی مشاورت کے بعد اعظم سواتی کے بیٹے نے عدالت کو لکھا گیا خط واپس لے لیا۔

اس کے بعد بابر اعوان ایڈووکیٹ نےاعظم سواتی کی درخواست ضمانت پر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے حبیب جالب کا شعر پڑھا اور کہا کہ سندھ، بلوچستان کی ہائی کورٹس نے اعظم سواتی کے خلاف مقدمات ختم کر دیے۔

بابر اعوان نے کہا کہ حکام نے جیب سے شکایت نکالی اور مقدمہ بنا دیا، میں نے کبھی ایسی ایف آئی آر نہیں دیکھی جس میں ٹائم اور وقوعہ کی جگہ نہ لکھی ہو ، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ میں نام نہیں لینا چاہتا لیکن فیصلہ آپ کے سامنے رکھ دوں گا کہ ایک سیاسی شخصیت کو بیماری پر ضمانت دی گئی، ایک اور شخصیت کو اس کی تیمارداری کے لیے ضمانت دے دی گئی۔

سینیٹر کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اس معاملے پر ایف آئی اے کا کیا مؤقف ہے جس پر ایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ اسپیشل پراسیکیوٹر نہیں آسکے، استدعا ہے کہ سماعت ملتوی کی جائے جس پر عدالت نے ایف آئی اے کے وکیل کی استدعا مسترد کر دی اور دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

’غلط کیس درج کرنے والے افسران کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے‘

فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

سینیٹر اعظم سواتی کی درخواستِ ضمانت منظوری کے بعد اپوزیشن لیڈر سینیٹ سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ ملک کے تمام ادارے اس کی اور اس کے عوام کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔

اس موقع پر بات کرتے ہوئے سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ اللہ کے ہاں دیر اندھیر نہیں، 2023 کا بہترین آغاز ہوا ہے ، سال کے پہلے ورکنگ ڈے پر انصاف ملا اور عمران خان امیر و غریب سب کے لیے انصاف کی فراہمی کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں، آج کا فیصلہ امید کی کرن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فیصلے سے انصاف کی جیت ہوئی، بابر اعوان نے ایف آئی اے کے مؤقف کی تیاپانچا کردیا، غلط کیس درج کرنے والے افسران کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے۔

دوسری جانب، پی ٹی آئی سینئر رہنما فواد چوہدری نے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ اعظم سواتی کی ضمانت تو ہو گئی لیکن ہمارے نظام انصاف کے چہرے پر جو سیاہ داغ اس مقدمے نے لگایا ہے اس کا دھلنامشکل ہے۔

ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ جرم صرف یہ کہ طاقتور لوگوں پر تنقید کی جرت کیسے ہوئی، ہر صوبے کی عدالت کے چکر لگوا کر 75 سالہ بوڑھے شیر کی ہمت توڑنے کی کوششیں کی گئیں لیکن وہ ڈٹ کر کھڑا رہا۔

اعظم سواتی کی دوسری بار گرفتاری

27 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے نے گرفتار کیا تھا، اس سے قبل بھی انہیں 12 اکتوبر کو آرمی چیف کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

ایف آئی اے کی جانب سے سابق وفاقی وزیر کے خلاف پیکا 2016 کی دفعہ 20 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 131، 500، 501، 505 اور 109 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں تین ٹوئٹر اکاؤنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اعظم سواتی اور مذکورہ اکاؤنٹس نے غلط عزائم اور مذموم مقاصد کے ساتھ ریاستی اداروں، سینئر افسران سمیت جنرل قمر جاوید باجواہ کے خلاف انتہائی جارحانہ انداز میں ٹوئٹر پر مہم کا آغاز کیا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس طرح نام لے کر اور الزام عائد کرنے والی اشتعال انگیز ٹوئٹس ریاست کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلح افواج کے افسران کے درمیان تفریق پیدا کرکے بغاوت کی شرارت ہے۔‘

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اشتعال انگیز ٹوئٹس پر تبصرے کرکے ملزمان نے فوجی افسران کو ان کی ذمہ داریوں اور وفاداری سے بہکانے کی کوشش کی اور اعظم سواتی کی طرف سے یہ بار بار کوشش کی جارہی تھی۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے غلط معلومات کی بنیاد پر رازداری کی خلاف وزری کی جو کسی افسر، سپاہی، سیلر یا ایئرمین کو میوٹنی یا اپنے فرائض میں کوتاہی پر اکسانے کی کوشش ہے، مزید کہا گیا ہے کہ ایسے بیانات سے عوام میں خوف پیدا ہونے کا بھی امکان ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں