افغان باشدوں کو ملک سے بے دخل کرنے سے روکنے کیلئے درخواست

اپ ڈیٹ 03 جنوری 2023
ایڈووکیٹ عمر اعجاز گیلانی نے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق  میں دائر درخواست میں کہا کہ افغان پناہ کے متلاشی کچھ حقوق کے مستحق ہیں—فائل فوٹو:رائٹرز
ایڈووکیٹ عمر اعجاز گیلانی نے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق میں دائر درخواست میں کہا کہ افغان پناہ کے متلاشی کچھ حقوق کے مستحق ہیں—فائل فوٹو:رائٹرز

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) سے رابطہ کیا گیا ہے کہ وہ سرکاری محکموں کو ہدایات جاری کرے کہ وہ ان افغان پناہ گزینوں کو حراست میں نہ لیں یا انہیں زبردستی ملک بدر نہ کریں جن کی درخواستیں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) جیسے حکام کے سامنے زیر التوا ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایڈووکیٹ عمر اعجاز گیلانی نے اپنی ایک درخواست کے ذریعے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ یہ بھی قرار دے کہ افغان پناہ کے متلاشی، خاص طور پر افغان ہیومین رائٹس ڈیفنڈرز (اے ایچ آر ڈی) کچھ حقوق کے مستحق ہیں، انہیں پاکستانی آئین، پاکستان کے دستخط شدہ عالمی معاہدوں اور عالمی سطح پر رائج قانون کے تحت جبری طور پر بے دخل کیے جانے کے خلاف تحفظ بھی حاصل ہے۔

درخواست میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کو ہدایت جاری کرے کہ وہ اس وقت پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کی جانب سے دائر کردہ درخواستوں پر تیزی سے کارروائی مکمل کرے اور ان کا فیصلہ کرے، خاص طور پر ان درخواستوں پر جو افغان ہیومین رائٹس ڈیفنڈرز کے توسط سے دائر کی گئیں ہیں۔

درخواست میں این سی ایچ آر سے کہا گیا ہے کہ وہ وفاقی حکومت کو پاکستان میں پناہ کے متلاشی افراد، خاص طور پر افغان ہیومین رائٹس ڈیفنڈرز کو آئین کے آرٹیکل 4 کو آئین کی مختلف دفعات کے ساتھ ملا کر پڑھنے کے ساتھ حاصل ہونے والے تمام بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ قومی انسانی حقوق کمیشن، نیشنل ڈیٹا اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) اور یو این ایچ سی آر کو پاکستان میں رہنے والے پناہ گزینوں کے برتھ سرٹیفکیٹ رجسٹریشن عمل کو تیز ، سہل بنانے کے لیے بھی ہدایات جاری کرے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کو پاکستان میں موجود پناہ کے متلاشی شہریوں کو ہراساں کرنے اور ان کا استحصال کرنے سے روکنے کے لیے تمام متعلقہ وفاقی اور صوبائی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ رابطہ کرنا چاہیے۔

درخواست میں وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن کے اس بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ صوبے میں 129 افغان خواتین پناہ گزینوں کے ساتھ 178 بچے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ سقوط کابل کے بعد ہزاروں افغان ہیومین رائٹس ڈیفنڈرز اپنے پیاروں اور جائیدادوں کو چھوڑ کر ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے، ان میں سے کئی نے پاکستان میں پناہ لی۔

وہ لوگ اس وقت پاکستان میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، وہ اے ایچ آر ڈیز ایک سال سے زیادہ عرصے سے پاکستان میں مقیم ہیں۔

انہیں کوئی ایسی دستاویزات فراہم نہیں کی گئی جو انہیں قانونی شناخت فراہم کر سکے اور اس وجہ سے ان کا مستقبل غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے، ان میں سے زیادہ تر کے ویزوں کی مدت ختم ہو چکی اور وہ ان کی تجدید کے منتظر ہیں۔

یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کے انٹرویو لینے میں ایک سال سے زیادہ تاخیر ہوئی جب کہ انٹرویو کے بغیر ایجنسی پناہ گزین قرار نہیں دے سکتی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد سے انسانی حقوق کی صورتحال ابتر ہو گئی ہے جب کہ ملک انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کے لیے اب محفوظ نہیں رہا کیونکہ ان کی ماضی کی مصروفیات اور سرگرمیوں کو نئی حکومت کے بنیادی نظریے کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں