چین کا سرکاری میڈیا کورونا کے اعدادوشمار کم ظاہر کر رہا ہے، ماہرین کا الزام

اپ ڈیٹ 04 جنوری 2023
تجزیہ کاروں نے کہا کہ چینی حکام انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں اٹھا رہے — فائل فوٹو: رائٹرز
تجزیہ کاروں نے کہا کہ چینی حکام انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں اٹھا رہے — فائل فوٹو: رائٹرز

عالمی ماہرینِ صحت نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چین کا سرکاری میڈیا ملک میں کووڈ 19 کی نئی لہر سے پیدا ہونے والے انفیکشن سے پیدا ہونے والی صورتحال اور اموات کے علاوہ متاثرہ مریضوں کے اعدادوشمار کو کم ظاہر کر رہا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق 7 دسمبر کو چین نے اچانک یوٹرن لیتے ہوئے کورونا پابندیوں میں نرمی کردی تھی جس کے بعد دیگر ممالک نے چین سے آنے والے مسافروں کو لازمی ٹیسٹ کرانے کی ہدایات جاری کی تھیں۔

چین میں گزشتہ سال ’زیرو کووڈ پالیسی‘ کے خلاف احتجاج کے بعد کورونا پابندیوں کی پالیسی میں تبدیلی کی گئی تھی، یہ مظاہرے صدر شی جن پنگ کی صدارت میں عوامی مخالفت کا سب سے بڑا احتجاج تھا۔

بین الاقوامی ماہرین صحت نے دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں رواں سال کم از کم 10 لاکھ اموات کی پیش گوئی کی ہے۔

گزشتہ روز چین میں کورونا سے تین اموات رپورٹ ہوئیں، وبائی مرض کے پھیلاؤ سے لے کر اب تک سرکاری اعدادوشمار کے مطابق چین میں 5 ہزار 253 اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔

کمیونسٹ پارٹی کے سرکاری اخبار ’پیپلز ڈیلی‘ نے چینی ماہرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وائرس سے متاثرہ زیادہ تر لوگوں میں بخار کی شدت کم ہے۔

بیجنگ چاؤیانگ ہسپتال کے نائب صدر ٹونگ ژاؤہوئی نے اخبار کو بتایا کہ اس وقت بیجنگ کے ہسپتالوں میں سنگین نوعیت کے مریضوں کی شرح 3 سے 4 فیصد تک ہے۔

سیچوان یونیورسٹی کے ویسٹ چائنا تیانفو ہسپتال کے سربراہ کانگ یان نے کہا کہ گزشتہ تین ہفتوں میں مجموعی طور پر 46 شدید بیمار مریضوں کو آئی سی یو میں داخل کیا گیا ہے، ان میں سے صرف ایک فیصد میں انفیکشن کی علامات ظاہر ہوئی ہیں۔

مقامی حکام صحت نے بتایا کہ صوبہ سیچوان میں رہنے والے 80 فیصد سے زائد افراد کورونا وائرس کے نئے انفیکشن سے متاثر ہوئے ہیں۔

اس سے قبل 30 دسمبر کو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے چینی صحت کے حکام پر زور دیا تھا کہ وہ کووڈ کی صورتحال پر باقاعدگی سے حقیقی اعدادوشمار اور معلومات ظاہر کریں۔

عالمی ادارہ صحت نے چینی سائنسدانوں کو تکنیکی مشاورتی گروپ کے اجلاس میں وائرس سے متعلق تفصیلی اعدادوشمار پیش کرنے کی دعوت دی ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے چین کے ہسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں سمیت کورونا سے اموات اور ویکسی نیشن سے متعلق اعدادوشمار شیئر کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔

فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین نے کورونا کی شدت پر قابو پانے کے لیے چین کو مفت کووڈ ویکسین فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی۔

امریکا، فرانس، آسٹریلیا، بھارت اور دیگر ممالک چین سے آنے والے مسافروں کو لازمی کورونا ٹیسٹ کرانے کی ہدایت کریں گے جبکہ بیلجئیم کا کہنا ہے کہ وہ نئے کووڈ ویرینٹ کی تشخیص کے لیے چین کے طیاروں سے گندے پانی کو ٹیسٹ کریں گے۔

دوسری جانب چین نے کورونا اعدادوشمار کے حوالے سے تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نیا کورونا ویرینٹ وبائی ہوسکتا ہے، لیکن یہ کم خطرناک ہے۔

چین کے سرکاری میڈیا ’سی سی ٹی وی‘ کے مطابق بعض یورپی اور امریکی لوگوں کی سیاسی منطق کے مطابق چین کی جانب سے کورونا پابندیاں ہٹانا یا نہ ہٹانا دونوں طرح سے غلط ہے۔

معاشی اضطراب

چونکہ چینی مزدور اور خریدار بیمار پڑ رہے ہیں اسی دوران چین کی معاشی ترقی کے حوالے سے بھی تشویش میں اضافہ ہورہا ہے۔

کورونا کی نئی لہر نے چین کی پیداوار اور طلب کو کافی نقصان پہنچایا ہے جس کی وجہ سے آج جاری ہونے والے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ دسمبر میں چینی فیکٹریوں کی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

آئی ایم ایف کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ’چین میں آئندہ مہینوں میں کورونا کی نئی لہر سے بڑھتا ہوا انفیکشن رواں سال ملک کی معاشی صورتحال اور عالمی ترقی کو پیچھے دھکیل سکتا ہے‘۔

کیپیٹل اکنامکس کے تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ ’چین وبائی مرض کے انتہائی خطرناک ہفتوں میں داخل ہو رہا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ چینی حکام انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں اٹھا رہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ تازہ اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی اقتصادی سرگرمیاں کم ہوتی چلی جارہی ہیں اور جب تک انفیکشن پر قابو نہیں پایا جاتا یہ صورتحال مسلسل جاری رہے گی۔

چین کی وزارت ثقافت اور سیاحت کا کہنا ہے کہ مقامی سیاحتی مارکیٹ نئے سال کی تعطیلات کے دوران کم ہوکر 5 کروڑ 27 لاکھ تھی۔

وزارت نے کہا کہ کُل ریونیو 26.52 ارب یو آن (3.84 ارب ڈالر) سے زائد ریکارڈ کیا گیا، جو کہ سال بہ سال کی بنیاد پر 4 فیصد زیادہ ہے لیکن یہ ریونیو 2019 میں حاصل ہونے والے ریونیو کا صرف 35 فیصد ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں