پنجاب: ایڈمنسٹریٹرز کا تقرر، نئے منصوبے، ایم این ایز، ایم پی ایز کو فنڈز کی تقسیم کالعدم قرار

اپ ڈیٹ 03 جنوری 2023
جسٹس شاہد جمیل خان نے کہا کہ شیڈول کے مطابق فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں — فائل فوٹو: لاہور ہائیکورٹ ویب سائٹ
جسٹس شاہد جمیل خان نے کہا کہ شیڈول کے مطابق فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں — فائل فوٹو: لاہور ہائیکورٹ ویب سائٹ

لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب میں لوکل گورنمنٹ ایڈمنسٹریٹرز کا تقرر، ان کی جانب سے شروع کیے گئے تمام نئے ترقیاتی منصوبے اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لیے فنڈز کی تقسیم کو کالعدم قرار دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس شاہد جمیل خان نے 20 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا کہ حکمرانوں اور دیگر ایم این ایز اور ایم پی ایز کو ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کا عمل نہ صرف آئینی اسکیم کے خلاف ہے بلکہ جمہوریت کے اصولوں اور اس کی روح کو بھی مجروح کرنے والا ہے۔

فیصلے میں بنیادی طور پر 20 اکتوبر 2022 کو جاری کردہ نوٹی فکیشن کے تحت مقامی حکومتوں کے ایڈمنسٹریٹرز کے تقرر اور ان کے اختیارات کی قانونی اور آئینی حیثیت کا جائزہ لیا گیا، نوٹی فکیشن کا مقصد منتخب نمائندوں کی غیر موجودگی میں ایم این ایز اور ایم پی ایز کی جانب سے تجویز کردہ ترقیاتی اسکیموں کو آگے بڑھانے کے لیے مقامی حکومتوں کے ترقیاتی فنڈز استعمال کرنا تھا۔

عدالت عالیہ کے جج نے ریمارکس دیے کہ قانون سازوں کی جانب سے ووٹرز کو متاثر کرنے کے لیے حلقوں میں ان فنڈز کا غلط استعمال کیا جاتا ہے جس کے لازمی نتیجے کے طور ترقیاتی فنڈز غیر منصفانہ، غیر ضروری اور غیر قانونی طور پر خرچ ہوتے ہیں۔

انہوں نے قرار دیا کہ ’پِک اینڈ چوز‘ کے ذریعے ترقیاتی فنڈز کی تقسیم اور استعمال آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت حاصل برابری کے حقوق سے براہ راست متصادم ہے، اس لیے کسی ایسے علاقے یا حلقے میں امتیازی طور پر ترقیاتی فنڈز جاری کرنا جہاں حکمراں جماعت نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی غیر آئینی ہے۔

جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایڈمنسٹریٹر کے تقرر کا مقصد صرف ختم ہونے والی مقامی حکومتوں کی جانب سے کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد کرکے عوامی خدمت کے تسلسل کو یقینی بنانا ہے۔

جسٹس شاہد خان نے کہا کہ ترقیاتی فنڈز اگر پہلے ہی متعین کردہ ہوں، بجٹ کے ذریعے منظور کیے گئے ہوں اور قانون کے مطابق جاری کیے جائیں تو ایڈمنسٹریٹر خدمات اور کام کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے انہیں خرچ کر سکتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ قانون کے مطابق مقرر کیا گیا ایڈمنسٹریٹر مالی سال کے لیے منظور کیے گئے بجٹ سے صرف 8 فیصد ماہانہ خرچ کر سکتا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ منتخب نمائندے کی مدت پوری ہونے پر اگلے نئی منتخب مقامی حکومت کو بغیر کسی وقفے کے تشکیل دیا جانا چاہیے جو کہ آئین کے آرٹیکل 140-اے کی روشنی میں لوکل باڈی ایکٹ 2022 کی روح اور اسکیم کے مطابق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی قانون ساز اداروں کا مینڈیٹ پالیسی اصولوں کے مطابق قانون سازی کرنا ہے۔

جج نے مزید کہا کہ کوئی بھی قانون یا ایگزیکٹو فیصلہ، کسی بھی ایم این اے یا ایم پی اے کو مقامی حکومت کے زیر انتظام علاقے میں ترقیاتی فنڈز مختص کرنا چاہے وفاقی یا صوبائی حکومت کی جانب سے ہو، پی ایل جی ایکٹ 2022 کے تحت مقامی حکومت کو حاصل ہونے والے اختیارات اور افعال پر تجاوز کے مترادف ہے۔

جج نے کابینہ کی منظوری کے بغیر ایڈمنسٹریٹرز کے تقررکو قانونی اختیار کے بغیر قرار دیا اور نتیجتاً ان کے تمام فیصلوں اور اقدامات کو بھی قانونی اختیار کے بغیر قرار دیا۔

جسٹس شاہد خان نے فیصلہ دیا کہ لوکل باڈیز کے دائرہ کار میں موجود ترقیاتی کاموں کے لیے ایم این اے اور ایم پی اے کو فنڈز جاری کرنے کا کوئی بھی ایگزیکٹو آرڈر غیر قانونی ہے اور پی ایل جی ایکٹ 2022 کے سیکشن 4 کے پیش نظر اس طرح کی گرانٹ مختص کرنے کی اجازت دینے والا کوئی بھی ضابطہ یا قانون ناقابل عمل ہوگا۔

جسٹس شاہد جمیل خان نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ قانون کی متعلقہ شق کے مطابق اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں شیڈول کے مطابق فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔

درخواست گزار ملک مظہر حسین گورایا نے 13 نومبر 2022 کو ضلع کونسل ڈیرہ غازی خان کی جانب سے جاری کردہ ٹینڈر نوٹس کو قواعد و ضوابط کے خلاف قرار دیتے ہوئے سیکریٹری لوکل باڈیز کی انتظامی منظوری کے بغیر قرار دیتے ہوئے چیلنج کیا تھا۔

2018 کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے پنجاب میں مقامی حکومتیں ختم کردی تھیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں بحال نہیں کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں