معاشی بحران بےقابو، ٹیکسٹائل انڈسٹری کے 70 لاکھ ملازمین بےروزگار

اپ ڈیٹ 10 جنوری 2023
نمائندگان ٹیکسٹائل ایسوسی ایشنز کا کہنا تھا کہ انڈسٹری بند ہونے کے دہانے پر ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
نمائندگان ٹیکسٹائل ایسوسی ایشنز کا کہنا تھا کہ انڈسٹری بند ہونے کے دہانے پر ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل ایسوسی ایشنز کے نمائندوں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ کم ہوتی ہوئی برآمدات اور معاشی بحران کو ختم کرنے میں حکومتی ناکامی کی وجہ سے ٹیکسٹائل اور اس سے متعلقہ صنعتوں میں تقریباً 70 لاکھ افراد کو نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے پاس ٹیکسٹائل پروڈیوسرز اور برآمدکنندگان پر اثرانداز ہونے والے مختلف بحرانوں سے نمٹنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انڈسٹری بند ہونے کے دہانے پر ہے، بہت سے یونٹ پہلے ہی بند ہو چکے ہیں، دیگر کئی ادارے بھی اپنی پیداوار بند کرنے یا بیرون ملک منتقلی کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل فیکٹریاں ضروری خام مال اور لوازمات سے محروم ہیں، 5 ہزار ڈالرز سے کم مالیت کے لیٹرز آف کریڈٹ (ایل سیز) کھولنے سے انکار کیا جا رہا ہے، جس نے 5 لاکھ ڈالر فی کنسائنمنٹ کے جاری شدہ برآمدی آرڈرز کو نقصان پہنچایا ہے، یہ پیداوار میں تاخیر اور برآمدی آرڈرز کی منسوخی کا باعث بنا ہے، مختلف کنسائنمنٹس کے لیے مال بردار جہازوں کے مالکان نے لاگت میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کے باوجود حکومت کابینہ ارکان کے لیے بی ایم ڈبلیو جیسی مہنگی لگژری کاریں درآمد کر رہی ہے، یہ درآمدات زرمبادلہ کمانے میں کسی کام نہیں آئیں گی، سرکاری عہدیداروں پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جارہا اور روزگار کے مواقع صفر ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ستم ظریفی ہے کہ ملک میں ڈالر لانے والے برآمد کنندگان کو خام مال کی درآمد کے لیے ترجیحی فہرست میں تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے، گندم اور خوردنی تیل جیسی ضروری اشیا ترجیحی فہرست میں پہلے نمبر پر ہیں جبکہ توانائی سے متعلقہ درآمدات دوسرے نمبر پر ہیں۔

انہوں نے شکوہ کیا کی کہ ڈالر کمانے والے برآمدی شعبوں کو ترجیحی فہرست میں ڈالر خرچ کرنے والے شعبوں سے نیچے رکھا گیا ہے، یہ امر پالیسی سازوں کے ناقص فیصلے کی عکاسی کرتا ہے، انہوں نے سوال کیا کہ ’اگر آپ پہلے کمائیں گے نہیں تو ضروری اشیا اور توانائی پر زرمبادلہ کیسے خرچ کریں گے؟‘

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 9 ماہ کے دوران حکومت کی کارکردگی ناقص رہی ہے، اس عرصے کے دوران 2 وزرائے خزانہ معاشی بحران سے نمٹنے میں ناکام ثابت ہوئے، وزیر اعظم اور وزیر خزانہ بھی برآمد کنندگان سے ملاقات کے لیے کچھ وقت مختص کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ صنعتی شعبہ شدید مالی دباؤ میں کام نہیں کر سکتا، دیوالیہ پن کے خطرے کی گھنٹی مسلسل بج رہی ہے جبکہ حکومت کی مالیاتی اور اقتصادی ٹیم سکون کی نیند سو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک ڈالر کے بحران کا شکار ہے اور معیشت کو ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے، برآمدات کو فروغ دے کر ہی ڈالر کی موجودہ قلت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں