سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے پنجاب میں اپنے اتحادی اور وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اِن کی اربوں کی کرپشن کے الزامات کے باعث میری مقبولیت متاثر ہو رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں کے ہمراہ اجلاس میں عمران خان نے کہا کہ ’میں پنجاب میں مخلوط حکومت کے خلاف ایسے الزامات برداشت نہیں کرسکتا‘۔

سابق وزیر اعظم نے زور دیا کہ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے تمام اراکین اسمبلی پرویز الہٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے اور اسمبلی تحلیل کرنے پر آمادہ کریں۔

پی ٹی آئی چیئرمین کے مذکورہ ریمارکس سامنے آنے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب نے زمان پارک (عمران خان کی رہائش گاہ) کا دورہ کیا اور عمران خان کو یقین دہانی کروائی کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) بھرپور طریقے سے پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی ہے۔

رہنما مسلم لیگ (ق) مونس الہٰی (جو اس وقت بیرون ملک موجود ہیں) نے ڈان کو بتایا کہ ان کے والد کی عمران خان سے ملاقات کے نتیجے میں تناؤ ختم ہوگیا ہے، کسی قسم کے عناد کے بجائے وہ دونوں اب بہترین دوست بن گئے ہیں۔

مونس الہٰی نے دعویٰ کیا کہ عمران خان نے میرے والد کو یقین دلایا ہے کہ جو بھی معلومات ان کے پاس آئیں گی وہ سب سے پہلے پرویز الہٰی کے ساتھ شیئر کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پرویز الہٰی نے بھی یقین دہانی کروائی کہ عمران خان ہی ان کے لیڈر ہیں اور وہ ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے‘، انہوں نے زور دیا کہ ’ہمارا اتحاد پہلے سے زیادہ مضبوط ہے‘۔

ایک جانب عمران خان پنجاب اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ میں تاخیر پر تذبذب کا شکار ہیں جبکہ دوسری جانب سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی اسد عمر نے بالکل مختلف مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پنجاب میں حکمراں اتحاد اپوزیشن کی خواہش پر اعتماد کا ووٹ نہیں لے گا‘۔

عمران خان اور ان کے پارٹی رہنماؤں کی جانب سے پرویز الہٰی کو 11 جنوری کو لاہور ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت سے قبل گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کی ہدایت کے مطابق اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے قائل کیا جارہا تھا، تاہم پرویز الہٰی نے ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے تک ووٹ لینے سے انکار کردیا تھا۔

اسد عمر نے کہا کہ ’ہم اعتماد کا ووٹ اس وقت لیں گے جب اس کی قانونی یا سیاسی ضرورت ہوگی‘۔

پی ٹی آئی کے کئی رہنما اب بھی سمجھتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب قانونی پیچیدگیوں کی آڑ میں اعتماد کے ووٹ میں تاخیر کی کوشش کر رہے ہیں، اُن کا خیال ہے کہ پرویز الہٰی اسمبلی کی تحلیل میں مزید تاخیر کرنے کے لیے اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جاسکتے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی اسمبلی کی تحلیل میں رکاوٹیں پیدا کرتے رہیں گے کیونکہ وہ پہلے ہی یہ طے کر چکے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ اور بااختیار حلقوں کے اس مؤقف کے مطابق چلیں گے کہ اسمبلی کو اپنی آئینی مدت مکمل کرنی چاہیے‘۔

پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر پارلیمانی امور پنجاب راجا بشارت نے بتایا کہ ’پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) نے 21 بل منظور کروائے اور اپوزیشن ان بلوں کی مخالفت میں بھی ناکام رہی‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور وزیر اعظم کے مشیر عطا اللہ تارڑ صبح 11 بجے سے تقریباً 8 گھنٹے تک اسمبلی گیلری میں بیٹھے رہے لیکن اجلاس میں کچھ حاصل نہ کر سکے۔

ایک سوال کے جواب میں اسد عمر نے کہا کہ ’جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو نامعلوم نمبروں سے کالز موصول ہو رہی ہیں لیکن ان کالز سے کوئی اثر نہیں پڑے گا‘۔

اسد عمر نے کہا کہ غیر ملکی ذخائر میں زبردست کمی اور بدترین مہنگائی کی صورت میں ملک تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پر بھی تنقید کی کہ وہ معیشت کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے اور اب انہوں نے کمرشل بینکوں میں پڑے عوام کے پیسوں پر نظریں جمالی ہیں۔

اسد عمر نے کہا کہ درآمدات بند ہو چکی ہیں اور انڈسٹری بھی بند ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں بے روزگاری، روزمرہ استعمال کی اشیا کی قلت اور قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے پنجاب میں آٹے کے بحران کا ذمہ دار پی ڈی ایم حکومت کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال حمزہ شہباز نے بطور وزیر اعلیٰ اپنے مختصر دور میں مئی کے مہینے میں گندم جاری کردی تھی جس کی وجہ سے اس کی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں