کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا فیصلہ تمام اسٹیک ہولڈرز نے کیا تھا، عمران خان

اپ ڈیٹ 10 جنوری 2023
عمران خان نے کہا کہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ خطرہ خیبرپختونخوا کو ہے— فوٹو: ڈان نیوز
عمران خان نے کہا کہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ خطرہ خیبرپختونخوا کو ہے— فوٹو: ڈان نیوز

سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی لہر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کا فیصلہ تمام اسٹیک ہولڈرز نے کیا تھا۔

اسلام آباد میں پاکستان میں دہشت گردی کی لہر میں اضافے کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ یہ اس وقت پاکستان کا اہم مسئلہ ہے، اگر اس کا صحیح معنوں میں حل نہیں نکالا تو اس کے اثرات بڑھ سکتے ہیں اور ایسے حالات معاشی صورتحال بالکل برداشت نہیں کرسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے چند دنوں بعد جنرل پرویز مشرف نے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو بلایا اور کہا کہ ہم امریکا کو صرف لاجسٹک سپورٹ فراہم کریں گے، وہ لوگ جنہوں نے امریکا پر حملہ کیا تو ہماری ذمہ داری ہے اگر وہ لوگ پاکستان میں ہیں تو ہمیں ان کو امریکا کے حوالے کرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکی دباؤ کی وجہ سے ہم پوری طرح اس جنگ میں شامل ہوگئے اور جب پاکستان کی فوج کو وزیرستان بھیجا جارہا تھا تو میں نے ہر فورم پر کہا تھا کہ فوج وہاں نہیں بھیجنی چاہیے۔

عمران خان نے کہا کہ قائد اعظم نے 1948 میں قبائلی علاقوں سے پاکستان کی فوج واپس بلالی تھی اور کہا تھا کہ قبائلی علاقے کے لوگ ہماری فوج ہے اور ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے وہاں اپنی فوج رکھنے کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے روس کے خلاف مجاہدین کو تربیت دی اور امریکا کے حق میں جب ہم نے 180 ڈگری پر یوٹرن لیا تو نہ وہ مجاہدین جن کو ہم نے تربیت دی تھی نہ ان گروپس نے ہماری بات مانی اور انہوں نے سمجھا کہ یہ دہشت گردی نہیں بلکہ جہاد ہے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ خاص طور پر قبائلی علاقوں میں لوگوں میں بھی اس چیز پر بڑی مزاحمت تھی اور پھر جب ہم نے اپنی فوج بھیجی، تورا بورا کے بعد القاعدہ کے کئی لوگ بھی وہاں آگئے تو ان میں سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) بن گئی، یہ اس کے ردعمل میں بنے۔

ان کا کہنا تھا کہ پھر اس گروپ نے پاکستان کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تو کہا پاکستان شراکت دار ہے اور امریکا کی مدد کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے خلاف خودکش حملوں کے لیے ان کے پاس یہ بیانیہ آگیا کہ پاکستان بھی امریکا کی مدد کر رہا ہے اور ہم پاکستان کے خلاف خودکش حملے کر رہے ہیں تو یہ جہاد ہے۔

’اشرف غنی حکومت میں دہشت گرد گروپ پاکستان کے خلاف سرگرم تھے‘

عمران خان کا کہنا تھا کہ اگست 2019 میں جب امریکا نے افغانستان چھوڑا تو پاکستان کے پاس سنہرا موقع تھا کیونکہ اشرف غنی کی حکومت بھارت نواز تھی اور وہاں سے 3 مختلف دہشت گرد گروپ پاکستان کے خلاف سرگرم تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا افغانستان میں مداخلت نہیں کرنی ہے، افغانستان کے لوگ اپنے فیصلے خود کریں اور کوشش کی کہ طالبان اور اشرف غنی کی حکومت کے درمیان کوئی سیاسی حل نکل آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی حکومت پہلی حکومت تھی جو پاکستان کی حامی تھی اور ہمارے ان کے ساتھ تعلقات تھے کیونکہ امریکا اور اشرف غنی کی حکومت سے مذاکرات کے لیے پاکستان نے ثالثی کی تھی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ جب طالبان نے ٹی ٹی پی سے کہا پاکستان واپس چلے جاؤ تو یہ موقع تھا کہ ہم ایک حل نکالتے کیونکہ ہمیں تصفیہ کرنے کے لیے افغانستان کے اندر پاکستان کی حامی حکومت ضروری تھی کیونکہ وہ ان پر دباؤ ڈالتے اور انہوں نے دباؤ بھی ڈالا۔

’30 سے 45 ہزار افراد میں سے 5 سے 7 ہزار جنگجو ہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے 30 سے 45 ہزار لوگ واپس آرہے ہیں، جن میں سے 5 سے 7 ہزار جنگجو ہیں اور ان کو ہم نے دوبارہ آباد کرنا تھا اور خیبرپختونخوا میں مالاکنڈ کے ہمارے رہنماؤں نے کہا تھا کہ ان کی وہاں دشمنیاں ہوگئی ہیں اور جب واپس آئیں گے تو مشکل ہوگی، یہ سب پتا تھا لیکن کیا کرتے، اتنے لوگ افغانستان میں نہیں رکھے جارہے تھے تو ان کو واپس آنا تھا۔

عمران خان نے کہا کہ یہی وقت وہاں ان پر توجہ دینے کا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا، انہوں نے نہ تو معیشت پر توجہ دی، ساری دنیا میں بھیک مانگتے پھر رہے ہیں، سیلاب کے نام پر پیسے مانگ رہے ہیں کیونکہ معاشی طور پر پاکستان کے آج وہ حالات ہیں جو تاریخ میں نہیں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اس لیے بڑھ رہی ہے کیونکہ موجودہ حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی اور سب سے زیادہ خطرہ خیبرپختونخوا میں ہے، پولیس کے پاس مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے، کراچی میں اس وقت بھی رینجرز ہے حالانکہ وہاں کے حالات بالکل مختلف ہیں۔

’افغان حکومت نے تعاون نہیں کیا تو ہمارے لیے عذاب بن جائے گا‘

انہوں نے کہا کہ چند ایک وزرا کو افغانستان اور ضم اضلاع کی صورت حال کی سمجھ نہیں ہے اور غیرذمہ دارانہ بیانات دے رہے ہیں، اگر افغانستان کی حکومت نے تعاون کرنا بند کردیا تو اس کا اثر یہ ہوگا کہ اگر دہشت گردی کی جنگ شروع ہوئی تو پھر یہ چلتی جائے گی اور نہیں رکے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ باڑ کئی جگہ سے توڑنا شروع ہوگئی ہے، افغانستان کی حکومت کے ساتھ بات کیوں نہیں کی، وزیر خارجہ دنیا بھر کے چکر لگارہا ہے لیکن سب سے اہم تو اس کو افغانستان جانا چاہیے تھا۔

عمران خان نے کہا کہ افغانستان کی حکومت ہمارے ساتھ تعاون کر رہی تھی لیکن اگر اس وقت ان کے ساتھ تعلقات خراب کردیے تو یہ جو اپنی نئی دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کر رہے ہیں یہ عذاب بن جائے گی۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہم نے اکیلے نہیں کیے بلکہ سارے اسٹیک ہولڈرز نے مل بیٹھ کر یہ فیصلہ کیا تھا اور ان سب کے سامنے پریزینٹیشن دی گئی تھی کہ ان کو کیسے دوبارہ آباد کرنا ہے اور کیوں پہلے ان سے بات چیت کرنی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں