پنجاب اسمبلی میں ایک بار پھر ہنگامہ آرائی، اجلاس کل تک ملتوی

اپ ڈیٹ 10 جنوری 2023
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز
مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے زبردستی اسمبلی میں داخل ہونے کی کوشش کی — فوٹو: ڈان نیوز
مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے زبردستی اسمبلی میں داخل ہونے کی کوشش کی — فوٹو: ڈان نیوز
اجلاس کے آغاز سے قبل پنجاب اسمبلی کے دروازے بند کر دیے گئے — فوٹو: ڈان نیوز
اجلاس کے آغاز سے قبل پنجاب اسمبلی کے دروازے بند کر دیے گئے — فوٹو: ڈان نیوز

پنجاب اسمبلی کے 3 گھنٹے سے زائد تاخیر سے شروع ہونے والے اجلاس کے دوران ایک بار پھر ہنگامہ آرائی جاری رہی اور اپوزیشن اراکین نے کاپیاں پھاڑ دیں، بعد ازاں اسپیکر نے اجلاس 11 جنوری (کل) سہ پہر 3 بجے تک ملتوی کردیا۔

اجلاس کے آغاز سے قبل وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور عطااللہ تارڑ سمیت مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی ایوان میں داخلے پر مبینہ پابندی کے پیش نظر اسمبلی گیٹ پر پارٹی اراکین اور سیکیورٹی گارڈز گتھم گتھا ہوگئے تھے۔

اجلاس کی صدارت اسپیکر سبطین خان نے کی، اجلاس کے آغاز پر حکومت کے 25 اراکین اور اپوزیشن کے 56 اراکین شریک تھے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن رانا محمد اقبال نے کہا کہ کل ہماری تعداد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے زیادہ تھی، جب تعداد زیادہ ہو تو ہماری بات بھی سن لیا کریں۔

اسپیکر سبطین خان نے کہا کہ کل کسی نے کورم کی نشاندہی نہیں کی، کل حکومتی بنچوں کی تعداد زیادہ تھی۔

مسلم لیگ (ن) کے خلیل طاہر سندھو نے بتایا کہ رولز معطل کرکے بدترین قانون سازی ہوتی ہے۔

اس دوران خلیل طاہر سندھو کی ایوان میں نقطہ اعتراض پر تلخ کلامی ہوئی، اقلیتی رکن اسمبلی سمیوئل یعقوب کو ڈانٹ کر بیٹھنے کا کہہ دیا گیا۔

خلیل طاہر سندھو نے کہا کہ 700 یونیورسٹیوں کے بل تو منظور کر لیے لیکن ہمیں ایجنڈے کا بل تو دے دیا جائے۔

پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی چوہدری ظہیر الدین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کو 21 بار چانس دیا کہ تعداد پوری کریں لیکن انہیں شکست ہوئی، اتنی نالائق اپوزیشن 36 سال میں نہیں دیکھی۔

چوہدری ظہیر الدین کی تقریر کے دوران اپوزیشن بنچوں کی جانب سے شور شرابا جاری رہا۔

اعتماد کا ووٹ لینا آئینی ذمہ داری ہے، ہمت ہے ابھی ووٹ لیں، رانا مشہود احمد

(ن) لیگ کے رانا مشہود احمد خان نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 4 سال بعد رولز پر عمل درآمد شروع ہوا ہے تو پھر ہائی کورٹ کے آرڈر پر کیبنٹ اسٹینڈ نہیں کرتی، چئیر سے سوال رکھا، قانون سازی غیر قانونی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کہنا چاہتا ہوں کہ جھوٹ بولتے ہیں، اسٹینڈنگ کمیٹی کون نہیں بننے دے رہا، پہلی اسمبلی ہے جس میں قائمہ کمیٹیوں کا وجود عمل میں نہیں لایا گیا۔

رانا مشہود نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ رولز و پروسیجر کی دھجیاں اڑا کر اراکین کو ہی بل دیے جاتے ہیں، کون سا بل ہاتھ میں رکھا جس میں ترامیم کرتے، اعتماد کا ووٹ لینا آپ کی آئینی ذمہ داری ہے، ہمت ہے تو ابھی ووٹ لیں، ابھی جواب دیں گے، ایوان کس کے ساتھ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کل 4 بار فلور مانگا ہے، ووٹنگ کروائیں، بلوں پر ووٹنگ کروائیں، قوم کو گمراہ نہ کریں، قوم آٹا چوروں کا احتساب مانگتی ہے۔

اس موقع پر پنجاب اسمبلی میں ایک بار پھر ہنگامہ آرائی ہوئی اور اپوزیشن اراکین نے کاپیاں پھاڑ ڈالیں، ایوان مچھلی منڈی بن گیا، اپوزیشن اراکین نے پرویز الہٰی کے خلاف ’ڈاکو ڈاکو‘ کے نعرے لگائے اور ڈیسک پر بجا کر شور شرابا شروع کر دیا۔

صوبائی وزیر لائیو اسٹاک سردار شہاب الدین نے کہا کہ اپوزیشن کو کہنا چاہتا ہوں، جواب سن نہیں سکتے، مونس الہٰی کو چھوڑیں 1100 ارب روپے کی کرپشن جو حمزہ شہباز نے کی اس کا جواب دیں، اپوزیشن کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔

پی ٹی آئی رکن ظہیر عباس کھوکھر کی جانب سے بائیکاٹ

پی ٹی آئی کے ظہیر عباس کھوکھر نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کی بات کرنے والے سن لیں، وہی تحریک عدم اعتماد شرم کی وجہ سے واپس لی، ہمیں ان پر عدم اعتماد ہے، ارشد شریف کے قاتلوں، عمران خان پر حملے کا جواب دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب پر ظلم و بربریت کا سوال کرتے ہیں، معصوم بچوں کے قتل کا حساب مانگتے ہیں، عمران خان پر حملے کا عوام جواب مانگتی ہے۔

ظہیر عباس کھوکھر نے اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب اسمبلی کی لابی میں ایک جرائم پیشہ شخص بٹھایا ہوا ہے، اس لیے واک آؤٹ کر رہا ہوں۔

پی ٹی آئی کے میاں محمود الرشید نے لابی میں بیٹھے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت قائم ہے اور قائم رہے گی۔

اسپیکر سبطین خان نے اجلاس 15 منٹ کے لیے ملتوی کیا، لیکن بعد ازاں اسے 11جنوری سہ پہر 3 بجے تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

قبل ازیں اسمبلی اجلاس کے آغاز سے قبل پنجاب اسمبلی کے دروازے بند کر دیے گئے تھے، اسمبلی گیٹ پر سیکیورٹی اہلکار ہائی الرٹ تھے اور کسی کو بھی پنجاب اسمبلی کے اندر جانے سے روک دیا گیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے زبردستی اسمبلی میں داخل ہونے کی کوشش کی اور سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ شدید ہاتھا پائی کی، خلیل طاہر سندھو، پیر اشرف رسول، ذیشان رفیق اور دیگر اراکین اسمبلی کی سیکیورٹی گارڈز سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔

بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی زبردستی گیٹ کھولنے میں کامیاب ہوگئے اور دھکے دے کر گاڑی اندر لے آئے۔

عطااللہ تارڑ کو اسمبلی میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش بھی کی گئی، تاہم وہ حفاظتی رینجرز کے ساتھ پنجاب اسمبلی میں داخل ہوگئے۔

اس موقع پر عطااللہ تارڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’آج کہا گیا کہ وفاقی وزرا پنجاب اسمبلی نہیں آسکیں گے، یہ وزرا کو کیسے روک سکتے ہیں، رانا ثنااللہ بھی آئیں گے اور دیگر رہنما بھی آئیں گے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے نمبرز پورے نہیں ہوئے، ہماری تعداد 177 تھی اور ان کی 140 تھی، ہمارے ارکان میں سے آخری رکن مولانا الیاس چنیوٹی تھے، بلال وڑائچ کو نکال کر ہماری تعداد 179 بنتی ہے، قانون سازی ’آئیز ہیوٹ‘ کہہ کر کی اگر گنتی کروا لیتے تو ہمارے 20 ارکان ان سے زیادہ تھے۔

انہوں نے کہا کہ اقلیتی حکومت کے وزیر اعلیٰ بھاگے ہوئے ہیں اور اعتماد کا ووٹ لینے سے گریزاں ہیں، پرویز الہٰی کے دھاندلی کرکے بھی نمبرز پورے نہیں ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ کل عمران خان اور پرویز الہٰی گتھم گتھا ہوگئے کہ پرویز الہٰی کی کرپشن سے حکومت پنجاب کی بدنامی ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتی آرڈر میں کہا گیا کہ اعتماد کا ووٹ جب چاہیں لے لیں تو پھر ان کو کیا چیز روک رہی ہے؟ آپ کو بھی معلوم ہے کہ آپ کے پاس اراکین کی مطلوبہ تعداد نہیں ہے، اکثر خواتین بھی پرویز الہٰی کو ووٹ دینے کو تیار نہیں ہیں، آئین کا آرٹیکل 130 (7) کہتا ہے کہ اعتماد کا ووٹ لینا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت سے بھی استدعا ہے کہ عدالت میں آئین کو دوبارہ نہ لکھا جائے، لاہور ہائی کورٹ سے استدعا ہے کہ اعتماد کا ووٹ لیں ورنہ سپریم کورٹ جائیں گے۔

پنجاب حکومت نے اسمبلی میں داخلے سے روکنے کی کوشش کی، رانا ثنا اللہ

رانا ثنا اللہ نے پنجاب اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری پرویز الہیٰ کی اقلیتی حکومت اس وقت پنجاب میں مسلط ہیں، انہوں نے پنجاب اسمبلی میں میرا داخلہ بند کرنے کی کوشش کی لیکن سیکیورٹی اہلکاروں نے ان کے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات سے انکار کردیا۔

انہوں نے کہا کہ انہیں جب معلوم ہوگیا کہ ایوان میں ان کے پاس مطلوبہ تعداد کی حمایت حاصل نہیں ہے تو انہوں نے ہمارے خلاف اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کردیے، انہیں خوف ہے کہ ان کی چوری پکڑی جائے گی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں ہماری تعداد 179 ہے اور ہماری کوشش ہے کہ یہ تعداد 180 ہوجائے، پنجاب حکومت کے پاس 186 تعداد نہیں ہے، اس صورتحال میں اگر نئے وزیراعلیٰ کا الیکشن ہوتا ہے تو وہ آئین کے مطابق ہوگا ورنہ وفاقی حکومت آئینی طور پر صوبے میں گورنر راج لگا سکتی ہے۔

رہنما مسلم لیگ (ن) خلیل طاہر سندھو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رات کو سیکریٹری اسمبلی نے کہا کہ عطااللہ تارڑ اور رانا ثنااللہ کو اندر جانے نہیں دیں گے، اگر کسی رہنما کے ساتھ کوئی واقعہ ہوا تو پرویز الہٰی سمیت ان کے صاحبزادے ذمہ دار ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ لوگ اتنا ڈرتے ہیں تو اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں