حکومت سندھ کا کراچی، حیدرآباد اور دادو میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان

اپ ڈیٹ 13 جنوری 2023
وزیر اطلاعات سندھ نے رات گئے پریس کانفرنس کر کے الیکشن ملتوی کرنے کا اعلان کیا— فوٹو: ڈان نیوز
وزیر اطلاعات سندھ نے رات گئے پریس کانفرنس کر کے الیکشن ملتوی کرنے کا اعلان کیا— فوٹو: ڈان نیوز

سندھ حکومت نے 15 جنوری کو کراچی، حیدرآباد اور دادو میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کردیا جبکہ کراچی اور حیدرآباد میں حلقہ بندیاں ختم کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔

یہ فیصلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک ہنگامی اجلاس کے بعد کیا گیا جس کی صدارت پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کی جس میں وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ، صوبائی وزراء اور پارٹی کے کراچی چیپٹر کے ضلعی صدور سمیت دیگر نے شرکت کی۔

اس سے قبل پیپلز پارٹی کے اجلاس سے قبل سندھ کابینہ نے اپنا ایک اجلاس ملتوی کر دیا تھا جس میں اس معاملے کو اٹھائے جانے کی توقع تھی۔

وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن سندھ نے جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی سندھ نے کابینہ کے اجلاس میں امن و امان کی صورتحال کے ساتھ ساتھ درپیش خطرات کے حوالے سے آگاہ کیا، آپ کو معلوم ہے کہ ایک دہشت گرد تنظیم کی جانب سے ایک خط جاری کیا گیا تھا جس میں مختلف جماعتوں کے نام لکھے ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد آئی جی سندھ نے آگاہ کیا کہ سندھ میں بھی حملے کا خطرہ موجود ہے جبکہ اس کے علاوہ 15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بھی تفصیلی بات چیت ہوئی اور اس پر حملے کا خطرہ بھی موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ کابینہ کے اجلاس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ حکومت سندھ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پہلے سے ایک خط لکھ چکی ہے کہ ڈسٹرکٹ دادو میں ابھی بھی سیلاب کا پانی موجود ہے اس لیے جب تک وہاں بارشوں اور سیلاب کا پانی موجود ہے، الیکشن ملتوی کیے جائیں کیونکہ وہاں انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہو سکے گا۔

شرجیل میمن نے کہا کہ وفاقی حکومت میں ہمارے اتحادی متحدہ قومی موومنٹ کا دیرینہ مطالبہ تھا اور انہیں حلقہ بندیوں پر کچھ اعتراضات تھے تو چونکہ ایم کیو ایم اتحادی ہے لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ اتحادی جماعتوں کے مطالبات کو سنجیدگی سے لیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے مطالبات پر سیکشن 10(1) کے تحت سندھ کابینہ یونین کونسل کے حوالے سے نوٹیفکیشن سے دستبردار ہو گئی ہے اور اس کے بعد ناصر حسین شاہ، سعید غنی اور تیمور تالپور پر مشتمل ذیلی کمیٹی کو یہ نوٹیفکیشن دے دیا گیا ہے تاکہ وہ دوبارہ ان نمبروں کا تعین کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ سابقہ نوٹیفکیشن سے دستبردار ہونے کے بعد نیا نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن کو جاری کردیا جائے گا جس کے بعد ذیلی کمیٹی تمام آبادی کو دیکھنے کے بعد ایک مرتبہ پھر یہی عمل کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد حیدرآباد، دادو اور کراچی میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہوں گے لیکن 15 تاریخ کو ڈسٹرکٹ ٹنڈو الہ یار، بدین، سجاول، ٹھٹہ، ٹنڈو محمد خان ڈسٹرکٹ اور مٹیاری میں سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے تیار ہے اور وہاں کے لوگ الیکشن کی مکمل طور پر تیار کریں اور وہاں الیکشن ملتوی نہیں ہوں گے۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ دہشت گردی کے خطرے کے علاوہ نفری کی کمی کا مسئلہ بھی درپیش ہے کیونکہ کچھ جماعتوں نے فوج اور رینجرز کو تعینات کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا لیکن سرحدوں کی صورتحال کے ساتھ ساتھ پاک فوج مختلف محازوں پر دہشت گردوں سے لڑائی کررہی ہے اس لیے جی ایچ کیو نے بھی بلدیاتی انتخابات کے لیے سیکیورٹی کی فراہمی سے معذرت کر لی ہے۔

اس کے علاوہ حکومت سندھ کی جانب سے کراچی اور حیدرآباد میں حلقہ بندیاں ختم کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔

احتجاج کا اعلان کروں گا، کارکنان تیار رہیں، حافظ نعیم الرحمٰن

جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے رات کی تاریکی میں کراچی اور حیدرآباد کے عوام پر انہوں نے شب خون مارا ہے لیکن پر طرح کی قانونی اور عوامی جنگ لڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں صبح 10 بجے احتجاج کا اعلان کروں گا اور ہو سکتا ہے کہ اس کی نوعیت پر شدید تر ہو لہٰذا کارکنان تیار رہیں۔

یاد رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان نے مقامی حکومتوں کی حلقہ بندیوں کو مسترد کرتے ہوئے انہیں ’غیر منصفانہ‘ قرار دیتے ہوئے اس حوالے سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کو واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

یہ تیسرا موقع ہے کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ ملتوی کیا گیا ہے۔

مقامی حکومتوں کی مدت 30 اگست 2020 کو ختم ہو گئی تھی اور اس کے بعد الیکشن کمیشن 120 دنوں کے اندر انتخابات کرانے کا پابند ہے۔

انتخابی عمل 24 جولائی کو ہونا والا تھا لیکن مون سون کی غیر معمولی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے انہیں ملتوی کردیا گیا تھا۔

اس کے بعد الیکشن کمیشن نے 28 اگست کو بلدیاتی انتخابات کا شیڈول دوبارہ جاری کیا تھا لیکن سیلاب کی صورتحال اور پولیس اہلکاروں کی کمی کی وجہ سے انہیں دوبارہ موخر کر دیا گیا تھا۔

بلدیاتی انتخابات ملتوی کیے جانے کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی، تاخیر کے خلاف درخواستوں پر تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے 16 نومبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جوکہ 18 نومبر کو سنا دیا گیا تھا۔

اس فیصلے میں سندھ ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو کراچی اور حیدر آباد میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول 15 روز میں جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے 2 ماہ کے اندر اندر الیکشن کرانے کا حکم جاری کیا تھا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں سکھر، لاڑکانہ، شہید بینظیر آباد اور میرپورخاص ڈویژنز کے کُل 14 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد 26 جون کو ہوچکا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں