ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کیلئے صحافیوں کی عالمی تنظیم کا ہر ممکن اقدامات پر زور

اپ ڈیٹ 22 جنوری 2023
عہدیدار آر ایس ایف نے کہا کہ اس کیس نے پاکستان میں تفتیش کاروں اور سویلین اداروں کی ساکھ کو داؤ پر لگا دیا ہے — فائل فوٹو: فیس بک
عہدیدار آر ایس ایف نے کہا کہ اس کیس نے پاکستان میں تفتیش کاروں اور سویلین اداروں کی ساکھ کو داؤ پر لگا دیا ہے — فائل فوٹو: فیس بک

صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے پاکستانی حکام پر زور دیا ہے کہ اکتوبر 2022 میں کینیا میں قتل کیے جانے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قاتلوں کا سراغ لگانے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ادارے کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ قتل سے متعلق ابھی بہت کچھ سامنے آنا باقی ہے۔

ادارے نے ارشد شریف کی موت سے قبل ان کی نقل و حرکت کا سراغ لگانے کے بعد کچھ تجاویز بھی پیش کی ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ قتل کے بعد سے حکومت پاکستان اور اس کے کمیشن آف انکوائری کو آزادانہ تحقیقات کے فقدان اور ارشد شریف کی موت سے جڑے معاملات پر بہت کم روشنی ڈالنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

آر ایس ایف کے ایشیا پیسیفک ڈیسک کے سربراہ ڈینیئل باسٹرڈ نے کہا کہ اس کیس نے پاکستان میں تفتیش کاروں اور سویلین اداروں کی ساکھ کو داؤ پر لگا دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ارشد شریف کے بہیمانہ قتل کے 3 ماہ بعد یہ معمہ پہلے سے زیادہ پیچیدہ بن گیا کہ ان کی موت کن حالات میں واقع ہوئی۔

آر ایس ایف نے کہا کہ اس نے ارشد شریف کے قریبی لوگوں کے سرکاری دستاویزات اور اکاؤنٹس کی مدد سے ان کے قتل سے پہلے 3 ماہ کے دوران ان کی نقل و حرکت کا پتا لگایا۔

اپنی تحقیق کی بنیاد پر آر ایس ایف نے آزادانہ تحقیقات کو یقینی بنانے کے لیے ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کو سفارشات کا ایک مجموعہ پیش کیا۔

آر ایس ایف نے سفارش کی کہ تفتیش کار ارشد شریف کے قتل کے ممکنہ محرکات پر توجہ مرکوز کریں جنہیں نظر انداز کیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں آر ایس ایف نے ارشد شریف کی میزبانی میں نشر ہونے والے ٹی وی شوز اور خاص طور پر 31 مئی کو ’اے آر وائی نیوز‘ کی جانب سے نشر ہونے والے شو کا تجزیہ کرنے کی تجویز دی جس کے بعد انہیں پہلی بار جان سے مارنے کی دھمکی ملی۔

آر ایس ایف نے ان تحقیقات کا جائزہ لینے کی بھی سفارش کی جو ارشد شریف پاکستان چھوڑنے سے پہلے کر رہے تھے۔

ادارے نے پاکستان، متحدہ عرب امارات اور کینیا کی حکومتوں کی جانب سے تفتیش کاروں کو مکمل آزادی کی یقین دہانی کے لیے تعاون کے حوالے سے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کرنے کی تجویز پیش کی۔

ادارے کی جانب سے جاری بیان میں اس تمام معاملے میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے کردار اور خاص طور پر ان کے اس بیان کے تناظر میں ان کا انٹرویو لینے کی تجویز دی گئی جس میں عمران خان نے کہا تھا کہ انہوں نے ارشد شریف کو پاکستان چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا۔

آر ایس ایف نے تجویز دی کہ ’اے آر وائی نیوز‘ کے سی ای او سلمان اقبال سے بھی اہم معلومات حاصل کرنے کے لیے انٹرویو کیا جائے جس سے کیس میں مدد مل سکتی ہے اور تفتیش کاروں کی معاونت کے لیے اقوام متحدہ سے بھی مدد لی جائے۔

بیان میں کہا گیا کہ ارشد شریف جان لیوا دھمکیوں کے سبب پاکستان چھوڑ کر دبئی چلے گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں