لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

آج سے ایک سال قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) ناقابلِ شکست نظر آرہی تھی تاہم اب ایسا نہیں ہے۔ شریفوں کی یہ جماعت جو 3 دہائیوں سے زائد عرصے تک ملک کی سیاست پر غالب رہی ہے وہ اب اپنے گڑھ میں ہی مشکلات کا شکار ہے۔

پنجاب اسمبلی کے انتخابات اب صرف کچھ ماہ کی دُوری پر ہیں اور ان انتخابات کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کو اپنے سخت ترین انتخابی چیلنج کا سامنا ہے۔ جماعت کو ضمنی انتخابات میں جس ہزیمت کا سامنا ہوا وہ ایک واضح اشارہ ہے۔

مزکر میں مسلم لیگ (ن) کی زیرِ قیادت ایک کمزور اتحادی حکومت کی موجودگی میں آنے والی معاشی تباہی کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کا مستقبل مزید تاریک نظر آرہا ہے۔ یہ ایک ایسی جماعت کے لیے احتساب کی گھڑی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بس ایک خاندان کی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) ایک قومی جماعت ہونے کی حیثیت تو کھو ہی چکی تھی مگر اب اس کا گڑھ بھی سابق وزیرِاعظم عمران خان کی مقبولیت کے زیرِ اثر ہے۔

یہ بات وقت کے ساتھ ساتھ مزید واضح ہوتی جارہی ہے کہ ملک کے بدلتے ہوئے سیاسی اور سماجی حالات میں یہ جماعت بالخصوص پنجاب میں اپنی سمت کھو چکی ہے جبکہ اس کی قیادت ملک سے باہر موجود ہے۔

شریف خاندان اب ایک مضبوط پی ٹی آئی مخالف بیانیہ تشکیل دینے کی کوششوں میں ہے تاکہ نہ صرف پی ٹی آئی کی مقبولیت کو کم کیا جاسکے بلکہ مسلم لیگ (ن) کے گڑھ اور خاص طور پر اسٹیٹس کو سے پریشان شہری متوسط طبقے کے نوجوانوں میں جماعت کی گرتی ساکھ کو بچایا جاسکے۔

مسلم لیگ (ن) کے لیے وقت کم رہ گیا ہے کیونکہ پنجاب کے اہم انتخابات میں اب تقریباً 3 ماہ ہی رہ گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ابھی تک ماضی میں ہی جی رہی ہے۔ جماعت پر موروثی کنٹرول سے جماعت کی رسائی میں کمی آئی ہے اور نئی قیادت بھی کم ہی آرہی ہے۔ یہاں سب کچھ خاندان میں ہی ہے جہاں بڑے بھائی سربراہ ہیں جبکہ چھوٹے بھائی ملک کے وزیرِاعظم اور جماعت کے صدر ہیں۔

معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا، دیگر جماعتی عہدوں پر بھی شریف خاندان کی نئی نسل موجود ہے۔ شہباز شریف کا وزیرِاعظم اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کا (مختصر مدت کے لیے ہی) وزیرِاعلیٰ پنجاب ہونا اس بات کا مظہر تھا کہ وہ جماعت جسے جمہوریت کے لیے کام کرنا تھا اس پر ایک خاندان کا غلبہ ہے۔ یہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کیا ملک کی طاقتور ترین سیاسی قوتوں میں سے کسی ایک کے پاس کوئی ایسا فرد نہیں تھا جو صوبے میں جماعت کی سربراہی کرسکے۔

جماعت کی چیف آرگنائزر اور سینیئر نائب صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد مریم نواز کو اب باضابطہ طور پر جماعت کا اگلا سربراہ قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ انہیں ایک طویل عرصے سے پارٹی کی سربراہی کے امیدوار کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا اور آخرکار انہیں اپنے والد کی جگہ حاصل کرنی تھی۔

یہ بات درست ہے کہ 2017ء میں اقتدار سے اپنے والد کی بے دخلی کے بعد انہوں نے جماعت کو متحرک رکھا۔ ان کے تقریر کے انداز اور شخصیت نے انہیں عوام میں مقبول بنایا لیکن مسلم لیگ (ن) میں مریم نواز کو نیا عہدہ ملنے کے حالیہ اعلان کے بعد کہا جاتا ہے کہ جماعت کے ان چند سینیئر رہنماؤں کو تشویش لاحق ہوئی ہے جو 3 دہائیوں سے زائد عرصے سے جماعت سے وابستہ ہیں اور اہم حکومتی عہدوں پر بھی رہ چکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ جماعت کے فیصلوں میں ان کا بہت کم عمل دخل ہوتا ہے۔

یہ جماعت کس طرح شریف خاندان کی جاگیر بن چکی ہے اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ مریم نواز کے 59 سالہ شوہرکیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر جو قومی اسمبلی کے رکن بھی ہیں وہ جماعت کے یوتھ ونگ کے سربراہ بن گئے ہیں۔ اس سے زیادہ ستم ظریفی اور کیا ہوگی۔

پارٹی اس طرح نوجوان نسل تک پہنچنے کی توقع کیسے کرسکتی ہے؟ اس کی وجہ صرف ان کی عمر نہیں ہے بلکہ ان کے رجعت پسند سیاسی خیالات بھی ہیں۔ وہ اپنی غیر واضح اور انتہائی مذہبی رائے کے لیے مشہور ہیں اور ان کی واحد قابلیت نواز شریف کا داماد ہونا ہے۔

جماعت کے اہم پالیسی فیصلوں کے بارے میں حتمی رائے وزیرِاعظم شہباز شریف نہیں بلکہ نواز شریف دیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال نواز شریف کی طرف سے اسحٰق ڈار کو وزیرِ خزانہ بنانے کا فیصلہ تھا۔ ان کے لیے خاندان کے ایک اور قریبی فرد اسحٰق ڈار یقیناً کسی باہر کے شخص سے زیادہ قابلِ اعتماد تھے۔ مفتاح اسمٰعیل زیادہ قابل تھے لیکن اس کے باوجود انہیں تقرری کے چند مہینوں کے اندر ہی وزیرِ خزانہ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

اسحٰق ڈار ایک اکاؤنٹنٹ ہیں جبکہ مفتاح اسمٰعیل ان کے برعکس ماہرِ اقتصادیات ہیں۔ انہوں نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے کچھ اہم لیکن مشکل فیصلے لیے لیکن جیسے ہی آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج بحال ہوا تو انہیں منصب سے ہٹا دیا گیا۔

امیدوں کے عین مطابق اسحٰق ڈار نے اپنے پیشرو کی طرف سے اٹھائے گئے متعدد اقتصادی اور مالیاتی اقدامات کو تبدیل کردیا جس کے تباہ کن نتائج نے ملک کو دوبارہ ڈیفالٹ کی راہ پر دھکیل دیا ہے۔ معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے آنے والے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امکانات کو مزید کم کردیا ہے۔

شاید یہ بات درست ہے کہ ملک کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں خاندانی اداروں میں تبدیل ہوچکی ہیں جن میں داخلی جمہوریت نہیں ہے۔ لیکن مسلم لیگ (ن) میں خاندانی کنٹرول کہیں زیادہ گہرا ہے جس میں کوئی بیرونی فرد اس دائرے میں نہیں آسکتا اور گزشتہ کچھ برسوں میں پارٹی کو لندن سے ہی چلایا جارہا ہے۔

بلاشبہ 3 مرتبہ وزیرِاعظم رہنے والے نواز شریف نے اپنے 4 دہائیوں پر محیط سیاسی کیریئر میں بہت سے مقدمے اور ٹریبیونل دیکھے ہیں۔ انہیں تینوں مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کی مدت ختم ہونے سے قبل ہی بالواسطہ یا بلاواسطہ فوجی مداخلت کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کردیا گیا مگر ماضی میں نواز شریف ہر مرتبہ ایک بڑے انتخابی مینڈیٹ کے ساتھ حکومت میں آئے لیکن اس مرتبہ وہ اتنے خوش قسمت نہیں ہوں گے کیونکہ انہیں ایک مشکوک اور متنازع عدالتی فیصلے کے ذریعے مجرم قرار دیتے ہوئے عوامی عہدہ رکھنے سے نااہل قرار دیا گیا ہے۔

ان کے ملک واپس آنے اور جماعت کی انتخابی مہم چلانے کے امکانات بہت کم ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں ان کی بیٹی مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم کی قیادت کریں گی۔ لیکن جماعت کے لیے اصل مسئلہ یہ ہوگا کہ زبردست اپوزیشن کے سامنے پنجاب میں اپنا کھویا ہوا سیاسی مقام کیسے حاصل کیا جائے؟

میڈیا رپورٹس کے مطابق پارٹی نے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ہاتھوں نواز شریف کو نشانہ بنائے جانے سے متعلق بیانیے پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

عمران خان کی جانب سے بھی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے پر الیکشن لڑنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے لیے عوامی حمایت حاصل کرنا مشکل ہوگی۔ جماعت کے لیے ایسے نئے آئیڈیاز یا ٹھوس پروگرام کے بغیر انتخابات میں جانا بہت زیادہ مشکل ہوجائے گا جو اسے ​​سیاسی حمایت واپس حاصل کرنے میں مدد دے سکے۔ بلاشبہ یہ شریف خاندان کے لیے فیصلے کی گھڑی ہے۔


یہ مضمون 25 جنوری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں