اداروں پر تنقید روکنے کیلئے مجوزہ قانون سازی پر کابینہ اراکین کے درمیان اختلافِ رائے

اپ ڈیٹ 09 فروری 2023
رہنما پیپلز پارٹی فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ ان کی پارٹی نے بھی مجوزہ ترامیم کو مسترد کر دیا ہے—فوٹو: اے پی پی
رہنما پیپلز پارٹی فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ ان کی پارٹی نے بھی مجوزہ ترامیم کو مسترد کر دیا ہے—فوٹو: اے پی پی

فوج اور عدلیہ کو بدنام کرنے پر 5 سال سزا کے مجوزہ قانون پر حکمراں اتحاد میں شامل رہنماؤں کے درمیان اختلاف رائے سامنے آیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) اور ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) میں مجوزہ ترامیم کو بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قرار دیا اور صحافیوں اور سیاستدانوں سمیت ہر شہری کے لیے اسی تحفظ اور سہولت کا مطالبہ کیا۔

2 روز قبل وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مجوزہ تبدیلیاں پیش کی گئیں لیکن بعض ارکان کی مخالفت کے باعث کابینہ کی جانب سے اسے منظوری نہ مل سکی اور وزیراعظم شہباز شریف اس معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے کابینہ کمیٹی تشکیل دینے پر مجبور ہوگئے۔

وزیر توانائی خرم دستگیر نے ایک نجی ٹی وی شو کے دوران کہا کہ انہوں نے مذکورہ ترامیم کی مخالفت کی کیونکہ یہ صرف ’مخصوص طبقات‘ کے لیے ہیں، یہ ترامیم متنازع ہیں اسی لیے وزیراعظم نے اس کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔

خرم دستگیر نے بتایا کہ انہوں نے کابینہ اراکین سے کہا کہ آئین میں اس طرح کی دفعات سب کے لیے ہونی چاہیے، یہ تحفظ سیاستدانوں، صحافیوں اور بالخصوص خاتون صحافیوں کو بھی ملنا چاہیے جنہیں سوشل میڈیا پر تذلیل اور تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

رہنما پیپلز پارٹی فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ ان کی پارٹی نے بھی مجوزہ ترامیم کو مسترد کر دیا ہے کیونکہ اگر پارلیمنٹ سے اسے منظور کرلیا گیا اور قانون میں تبدیل کرلیا گیا تو اس کے خطرناک نتائج ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی نہیں بلکہ پہلے بھی ہم نے ان ترامیم کی مخالفت کی تھی جب انہیں پہلی بار قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔

تاہم انہوں نے اس بات کی بہت کم امید ظاہر کی کہ وزیر اعظم کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کوئی دانشمندانہ فیصلہ کرے گی، انہوں نے کہا کہ ایک کمیٹی لاپتا افراد کے معاملے پر بھی بنائی جاچکی ہے جو کسی کا احتساب کرنے میں بے بس ہے۔

وزیراعظم آفس سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے بھیجے گئے فوجداری قوانین میں ترمیمی بل 2023 کا بغور جائزہ لینے کے لیے کابینہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ یہ کمیٹی اپنی رپورٹ کابینہ کے اگلے اجلاس میں پیش کرے گی، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر اقتصادی امور سردار ایاز صادق سمیت اتحادی جماعتوں کے نمائندوں کو بھی کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے۔

قبل ازیں کابینہ کے اجلاس کے دوران اس بل کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا جس میں بیشتر ارکان نے ترمیم کی مخالفت کی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پیپلزپارٹی رہنما شیری رحمٰن، نوید قمر اور حنا ربانی کھر بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے مجوزہ بل کی شدید مخالفت کی، جبکہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے صرف خواجہ سعد رفیق نے مجوزہ بل کی مخالفت کی۔

بل میں کیا تجاویز شامل ہیں؟

فوجداری قوانین (ترمیمی) ایکٹ 2023 کے عنوان سے بل میں پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 500 کے بعد سیکشن-500 اےکو شامل کرنے کی تجویز دی گئی جس کو ’ریاستی اداروں کو جان بوجھ کر بدنام کرنے اور تضحیک کا نشانہ بنانے‘ کا نام دیا گیا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی عدلیہ، مسلح افواج یا ان کے کسی بھی رکن کو بدنام کرنے یا تضحیک کا نشانہ بنانے کی نیت سے کوئی بیان دے یا معلومات کسی بھی ذرائع سے پھیلائے تو اس کو قید کی سزا کا مرتکب قرار دیا جائے گا اور اس میں 5 سال تک توسیع یا 10 لاکھ روپے جرمانے تک کی سزا ہوسکتی ہے یا جرمانہ اور قید دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔

اس میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ مجرم کو وارنٹ کے بغیر گرفتار کیا جا سکے گا اور الزام ناقابل ضمانت اور ناقابل مصالحت تصور کیا جائے گا اور اس کو صرف سیشن کورٹ میں چیلنج کیا جاسکے گا۔

کابینہ کی سمری میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں ریاست کے مخصوص اداروں کو حال ہی میں بدنام کرنے، تضحیک کا نشانہ بنانے اور بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں، ان اداروں میں عدلیہ اور مسلح افواج شامل ہے۔

ڈرافٹ میں بتایا گیا ہے کہ ذاتی مفادات کے لیے سائبر مہم شروع کی گئی ہے جس کا مقصد مخصوص ریاستی اداروں اور ان کے عہدیداروں کے خلاف اشتعال دلانا اور نفرت پھیلانا ہے، اس طرح کے حملوں سے ملک کے ریاستی اداروں کا استحکام، شہرت اور آزادی کو جان بوجھ کر داغ دار کیا جا رہا ہے، عدلیہ اور فوج کے عہدیداروں کو سامنے آنے اور اسکینڈلائز کرنے، تضحیک آمیز بیانات کا جواب دینے کا موقع نہیں ملتا۔

حکومت کی جانب سے تیار کیے گئے ڈرافٹ میں تجویز دی گئی کہ مجوزہ سیکشن کے غلط استعمال سے روکنے کے لیے کریمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 196 کے تحت کسی بھی شخص کا ادراک کرنے یا کسی کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرنے سے پہلے وفاقی حکومت سے لازمی طور پر منظوری لی جائے گی۔

اسی طرح کے ایک مسودہ بل کو اپریل 2021 میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے منظور کیا تھا جس میں جان بوجھ کر مسلح افواج کی تضحیک کرنے والوں کے لیے 2 سال قید اور جرمانے کی تجویز دی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں