کراچی: گھریلو ملازم کے قتل کے الزام میں خاتون 5 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

اپ ڈیٹ 12 فروری 2023
چھاچھرو میں مقتول رفیق کے قتل کے خلاف علاقہ مکین کا احتجاج — فائل فوٹو: امتیاز دھارانی
چھاچھرو میں مقتول رفیق کے قتل کے خلاف علاقہ مکین کا احتجاج — فائل فوٹو: امتیاز دھارانی

کراچی کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے ایک خاتون کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا جسے اپنے 11 سالہ ملازم کو قتل اور اس کے بھائیوں کو زخمی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے شیریں اسد کو گرفتار کر کے ان کے خلاف 8 فروری کو گلشن اقبال میں گھر میں کام کرنے والے نوجوان رفیق کو قتل اور اس کے تین بڑے بھائیوں کو زخمی کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا تھا۔

تفتیشی افسر نے ہفتے کے روز ملزمہ کو جوڈیشل مجسٹریٹ (شرقی) کے سامنے پیش کیا تاکہ اس کا جسمانی ریمانڈ حاصل کر کے تفتیش اور تحقیقات کے لیے پولیس کی تحویل میں رکھا جاسکے۔

تفتیشی افسر نے عدالت سے استدعا کی کہ شکایت گزار مقبول منٹھار علی کے مطابق ملزمہ اس کے بیٹوں کو مارتی تھی اور وہ مبینہ طور پر مقتول کو گرم چمٹے سے جلاتی تھی اور پلاس سے ان کے ناخن کھینچتی تھی۔

افسر نے کہا کہ ملزم نے شکایت گزار کے بڑے بیٹے مٹھا خان کو بھی زخمی کیا تھا اور تفتیش اور دیگر قانونی ضابطوں کو مکمل کرنے کے لیے پوچھ گچھ اور شواہد اکٹھے کرنے کے لیے ملزمہ کے 14 روزہ ریمانڈ کی استدعا کی۔

تاہم مجسٹریٹ نے ملزمہ کو 5 روزہ ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دیا اور افسر کو ہدایت کی کہ اسے تفتیشی رپورٹ کے ساتھ اگلی تاریخ پر پیش کیا جائے۔

مذکورہ معاملے کا مقدمہ مقتول کے والد کی مدعیت میں گلشن اقبال پولیس تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (قتل عمد)، 334 (قتل کی کوشش)، 337-اے (اعضا کو نقصان پہنچانے کی سزا) اور پریوینشن آف ٹریفکنگ ان پرسنز ایکٹ 2018 کے سیکشن 3 اور 4 کے تحت درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق شکایت کنندہ منٹھار علی نہڑیو نے کہا کہ وہ تھر کی تحصیل چھاچھرو کے کیتار گوٹھ کے رہائشی ہیں اور ان کے تین بیٹے 16 سالہ رضا، 13 سالہ رشید اور 11 سالہ رفیق تقریبا گزشتہ 13 ماہ سے 15 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر شیرین اسد کے گھر ملازمت کرتے تھے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 8 فروری کو تقریباً دوپہر دو بجے ان کے چچا زاد بھائی نے انہیں اطلاع دی کی ان کا بیٹا رفیق کراچی میں جاں بحق ہوگیا ہے۔

بعدازاں انہوں نے اپنے بڑے بھائی مٹھا خان سے رابطہ کیا جس نے بتایا کہ شیریں اسد نے انہیں بتایا تھا کہ 15 روز قبل رفیق رکشا سے گر کر زخمی ہوگیا تھا، اور اسی رات (8 فروری) کو رفیق گھر کے واش روم میں گر گیا۔

والد نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ انہیں بتایا گیا کہ ابتدائی طور پر رفیق کو گلشن اقبال میں زین ہسپتال منتقل کیا گیا اور بعدازاں انہیں ڈاؤ ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں انہیں مردہ قرار دیا گیا۔

والد نے کہا تھا کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی اور دیگر رشتہ داروں سے کہا کہ بیٹے کی لاش تھر لائی جائے۔

تاہم جب ان کے بھائی مٹھا خان، محمد سومر اور دیگر رشتہ دار گلشن پولیس اسٹیشن پہنچے تو پولیس نے بچے کا پوسٹ مارٹم کرانے پر زور دیا جس کے بعد لاش عباسی شہید ہسپتال منتقل کی گئی لیکن وہاں انہوں نے ڈاکٹروں کو لکھ کر دیا کہ وہ پوسٹ مارٹم نہیں کرانا چاہتے اور یوں لاش تھر منتقل کی گئی۔

انہوں نے کہا تھا کہ تدفین کے بعد اپنے بیٹوں رزاق اور رشید سے دریافت کیا کہ ان کے بھائی کو کیا ہوا تھا جس پر رزاق نے جواب دیا کہ بااثر خاتون شیریں اسد انہیں اور رفیق کو تشدد کا نشانہ بناتی تھیں۔

ایف آئی آر میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ شیریں اسد انہیں تشدد کا نشانہ بناتی تھیں جبکہ رزاق کو تشدد کرکے پلاس سے ان کے ناخن نکال لیے تھے اور پھر اس کے سر پر پلاس مارا جس کے نتیجے میں اس کی موت ہوگئی۔

تبصرے (0) بند ہیں