صحافتی تنظیم کا حکومت سے فوج پر تنقید کو جرم نہ بنانے کا مطالبہ

14 فروری 2023
تنظیم کا کہنا تھا کہ یہ قانون پولیس کو صحافیوں پر حد سے زیادہ انتظامی اختیارات دیتا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
تنظیم کا کہنا تھا کہ یہ قانون پولیس کو صحافیوں پر حد سے زیادہ انتظامی اختیارات دیتا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے حکومتِ پاکستان پر زور دیا ہے کہ مسلح افواج پر تنقید کو جرم نہ بنایا جائے کیوں کہ اس نے صحافتی آزادی کو سنگین خطرات لاحق ہوں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی تنظیم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ عام انتخابات قریب آرہے ہیں اور یہ قانون جمہوری عمل کو بری طرح متاثر کرسکتا ہے۔

آر ایس ایف کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق مجوزہ ترمیم کے تحت صحافیوں کو فوج پر تبصرہ کرنے پر 5 سال جیل ہوسکتی ہے، حکومت یہ ترمیم پارلیمان میں پیش کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

تنظیم نے کہا کہ مجوزہ قانون کی زبان ’انتہائی مبہم‘ ہے اور رواں سال کے آخر میں ہونے والے عام انتخابات کے عمل کے لیے اس کے اثرات تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں’۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ تعزیرات پاکستان میں ترمیم کا مسودہ ایک نئے قسم کا جرم تخلیق کردے گا۔

آر ایس ایف کی ایشیا پیسفک ڈیسک کے سربراہ ڈینیئل بسٹرڈ نے وزیر اعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا کہ مجوزہ قانون کو فوری طور پر ترک کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ قانون ’مبہم الفاظ میں جرم‘ تخلیق کر کے پولیس کو صحافیوں پر حد سے زیادہ انتظامی اختیارات دیتا ہے اور واضح طور پر صرف مسلح افواج کے بارے میں کسی بھی قسم کے تبصرے کو روکنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے تعزیرات پاکستان اور کوڈ آف کریمنل پروسیجر میں ترمیم کرتے ہوئے فوج اور عدلیہ کو بدنام کرنے پر 5 سال سزا کے لیے قانون کا ڈرافٹ تیار کیا تھا۔

ڈرافٹ میں کہا گیا تھا کہ جو کوئی عدلیہ، مسلح افواج یا ان کے کسی بھی رکن کو بدنام کرنے یا تضحیک کا نشانہ بنانے کی نیت سے کوئی بیان دے یا معلومات کسی بھی ذرائع سے پھیلائے تو اس کو قید کی سزا کا مرتکب قرار دیا جائے گا اور اس میں 5 سال تک توسیع یا جرمانے کے ساتھ سزا ہوسکتی ہے، جرمانہ 10 لاکھ روپے یا جرمانہ اور قید دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔

تعزیرات پاکستان کے شیڈول 2 میں سیکشن 500 کے ساتھ 500 اے کا اضافہ کردیا گیا تھا، جس کے تحت مجرم کو وارنٹ کے بغیر گرفتار کیا جائے گا اور الزام ناقابل ضمانت اور ناقابل مصالحت تصور کیا جائے گا اور اس کو صرف سیشن کورٹ میں چیلنج کیا جاسکے گا۔

بعدازاں چند روز قبل وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مجوزہ تبدیلیاں پیش کی گئیں لیکن بعض ارکان کی مخالفت کے باعث کابینہ کی جانب سے اسے منظوری نہ مل سکی اور وزیراعظم شہباز شریف اس معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے کابینہ کمیٹی تشکیل دینے پر مجبور ہوگئے۔

یہ کمیٹی اپنی رپورٹ کابینہ کے اگلے اجلاس میں پیش کرے گی، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر اقتصادی امور سردار ایاز صادق سمیت اتحادی جماعتوں کے نمائندوں کو بھی کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے۔

قبل ازیں کابینہ کے اجلاس کے دوران اس بل کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا جس میں بیشتر ارکان نے ترمیم کی مخالفت کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں