انتخابات کی تاریخ کے اعلان پر صدر مملکت سیاستدانوں کی تنقید کی زد میں

اپ ڈیٹ 22 فروری 2023
جے یو آئی ف کے اراکین پارلیمان نے دونوں ایوانوں میں صدر کی مذمتی قرار دار پیش کی۔—فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر
جے یو آئی ف کے اراکین پارلیمان نے دونوں ایوانوں میں صدر کی مذمتی قرار دار پیش کی۔—فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر

صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے پر ان کے سیاسی مخالفین کی جانب سے شدید تنقید کی گئی.

جنہوں نے صدر پر پی ٹی آئی کے کارکن کی طرح کام کرنے کا الزام لگایا اور ایک قانونی ماہر نے کا کہنا ہے کہ عارف علوی نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر کے’اپنے حقوق کے مطابق ٹھیک کیا ہے’۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے صدر سے مشاورت نہ کرنے کے اپنے فیصلے کی دوبارہ توثیق کے کچھ گھنٹوں بعد صدر پاکستان نے دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 9 اپریل کو ہونے کا اعلان کردیا تھا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو لکھے ایک خط میں صدر عارف علوی نے کہا کہ تاریخ کا اعلان الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57(1) کے تحت کیا گیا، انہوں نے ای سی پی کو اس تاریخ کے مطابق الیکشن شیڈول جاری کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔

عارف علوی کے اعلان کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے وزیر ماحولیاتی تبدیلی شیریں رحمٰن نے کہا کہ ’صدر صاحب جلد بازی میں الیکشن ایکٹ 2017 کے آرٹیکل 57 (1) کی بھی خلاف ورزی کر بیٹھے ہیں، الیکشن ایکٹ صدر کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد ہی ’عام انتخابات‘ کے اعلان کا اختیار دیتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آئین کے مطابق صوبائی انتخابات کا اعلان الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صوبے کے گورنر نے کرنا ہے، صدر نے نہیں۔ صدر عارف علوی عمران خان کی خوشنودی کے خاطر آئین اور قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں، انہیں اپنے عہدے اور اختیارات کا احترام کرنا چاہیے‘۔

وزیراعظم کے مشیر برائے امورِ کشمیر و گلگت بلتستان اور پی پی پی رہنما رہنما قمر الزمان کائرہ نے کہا کہ انتخابات آئین کے مطابق ہونے چاہیئیں لیکن صدر کی دی گئی تاریخ کو کسی صورت قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’صدر نے قاسم سوری کی طرح اپنی پارٹی قیادت کے احکامات کی تعمیل کی ہے‘۔

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-فضل) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ صدر نے ’ایک بادشاہ اور پی ٹی آئی ورکر کی طرح آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گورنرز اور الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت کی ہے۔

ایک ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ عارف علوی کا اقدام مس کنڈکٹ ہے جس پر الیکشن کمیشن کو ایکشن لینا ہوگا۔

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ عارف علوی پر صدر کے دفتر کو سازشوں کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگایا۔

ایک ٹوئٹ میں انہوں نے صدر مملکت سے کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینے سے صدر کا کوئی لینا دینا نہیں، وہ الیکشن کمشن کو غیرقانونی اور غیر آئینی احکامات پر مجبور نہیں کر سکتے’۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے صدر مملکت پر عمران خان کی خواہش پر آزاد آئینی ادارے الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالنے کا الزام لگایا اور کہا کہ ’آپ صدر ہیں، پارٹی ورکر نہیں‘۔

تاہم ایڈووکیٹ صلاح الدین کا کہنا تھا کہ صدر کو وزیراعظم کی تجاویز پر عمل کرنا چاہیے لیکن چند مخصوص معاملات میں آئین انہیں خود سے اقدام اٹھانے کی اجازت دیتا ہے لیکن الیکشن کی تاریخ کا اعلان وہ معاملہ نہیں ہے۔

اس کے ساتھ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات غیر واضح ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات کو ’عام انتخابات‘ کہا جاسکے گا یا نہیں۔

سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57 ایک ’پیچیدہ شق‘ ہے عدالت اسے ختم بھی کرسکتی ہے، اگرچہ یہ ملکی قانون کا حصہ ہے اس لیے اس کی تشریح اور اس پر عمل کرنا ہوگا۔

تاہم بیرسٹر محمد احمد پنوستا کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 57 کے تحت اپنے اختیار کا استعمال کیا اور انہوں نے اپنے حق کے مطابق انتخابات کا اعلان کیا۔

دوسری جانب جے یو آئی ف کے اراکین پارلیمان نے دونوں ایوانوں میں صدر کی مذمتی قرار دار پیش کی۔

قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ’آئین کے تحت صدر کو اس طرح کے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ہے اور وہ آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں