خصوصی بچوں پر ’تشدد میں ملوث‘ ٹیچر کے خلاف مقدمہ درج

اپ ڈیٹ 23 فروری 2023
رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ انہوں نے اس معاملے کی چھان بین کے لیے سینٹر کا دورہ کیا تھا — فائل/فوٹو: اے ایف پی
رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ انہوں نے اس معاملے کی چھان بین کے لیے سینٹر کا دورہ کیا تھا — فائل/فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد پولیس نے سیکٹر ایچ-9 میں واقع خصوصی بچوں کے مرکز میں بچوں پر تشدد کرنے والے ٹیچر کے خلاف تھانہ انڈسٹریل میں مقدمہ درج کرلیا۔

ایک قانون ساز نے مذکورہ سینٹر کو وزارت انسانی حقوق سے لے کر وزارت تعلیم کو دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں بات کرتے ہوئے پارلیمانی سیکریٹری برائے قانون مہناز اکبر عزیز نے کہا کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسپیشل ایجوکیشن کو وزارت تعلیم کا حصہ ہونا چاہیے، لیکن سابق وزیر تعلیم شفقت محمود نے اسے وزارت انسانی حقوق کے انتظامی کنٹرول میں دے کر ’بہت بڑی غلطی‘ کی۔

رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ انہوں نے اس معاملے کی چھان بین کے لیے سینٹر کا دورہ کیا تھا جس کے نتیجے میں تشدد کرنے والے عہدیدار کو معطل کیا گیا تھا۔

انہوں نے تصدیق کی کہ واقعے میں ملوث شخص کو معطل کیا جاچکا ہے اور مطالبہ کیا کہ خصوصی بچوں کے تمام مراکز کو وزارت تعلیم کے ماتحت کرنا چاہیے۔

رکن قومی اسمبلی کے مطابق ’اگلی صبح اس شخص نے نہ صرف بچوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ انہیں نیند سے جگانے کے لیے بالوں سے پکڑ کر کھینچا‘۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ شخص کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے متعلقہ قانون کو استعمال کیا جائے گا۔

دوسری جانب وزارت انسانی حقوق کے ذرائع نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بچوں پر تشدد کرنے والا شخص وارڈن کے ساتھ ساتھ اسی مرکز میں ٹیچر ہے اور اس کی ریٹائرمنٹ میں چند ماہ باقی ہیں۔

علاوہ ازیں وفاقی محتسب اعجاز احمد قریشی نے نوٹس لیتے ہوئے وزارت انسانی حقوق سے واقعے سے متعلق جامع رپورٹ طلب کرلی۔

ساتھ ہی انہوں نے سینٹر کی انتظامیہ اور اس ’غیر انسانی حرکت‘ کے ذمہ دار شخص کے خلاف کی گئی کارروائی کی تفصیلات بھی پیش کرنے کی ہدایت کی۔

ادھر خصوصی صلاحیتوں کے حامل افراد کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے جسمانی تشدد اور استحصال کے واقعے کی مذمت کی۔

تنظیم نے حکومت سے آئی سی ٹی ڈس ایبیلیٹی ایکٹ فار پرسن ود ڈس ایبیلیٹیز 2021 کے قواعد پر عملدرآمد کا بھی مطالبہ کیا۔

ایک بیان میں پوٹوہار مینٹل ہیلتھ ایسوسی ایشن (پی ایم ایچ اے) نے اس غیر اخلاقی واقعے سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا۔

پی ایم ایچ اے کے سربراہ ذوالقرنین اصغر کا کہنا تھا کہ جسمانی سزا بچوں کی جذباتی، ذہنی، جسمانی صحت اور تندرستی کے لیے نقصان دہ نتائج کے سلسلے سے منسلک ہے اور یہ بڑھتی ہوئی عداوت اور بربریت کا باعث بن سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ ماڈل ادارے ہیں لیکن اس قسم کی حرکتیں قابل قبول نہیں۔

ذوالقرنین اصغر نے مزید کہا کہ معذور افراد کے لیے آئی سی ٹی ڈس ایبلٹی ایکٹ 2021 کے قوانین بنانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ الفاظ کو عملی شکل دینے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اشاروں کی زبان سمجھنے والے آزاد، غیر معتصب افراد کو انکوائری کا حصہ بنایا جائے تاکہ یقینی بنایا جاسکے کہ طلبہ کے نقطہ نظر کو درست طریقے سے سمجھا گیا ہے۔

بصارت سے محروم ذوالقرنین اصغر کا کہنا تھا کہ یہ حوصلہ افزا بات ہے کہ انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی نے اس واقعے کا نوٹس لیا ہے اور پی ایم ایچ اے کو امید ہے کہ اس سے خصوصی تعلیم کے اداروں میں بچوں کو کسی بھی قسم کے بدسلوکی سے بچانے کے لیے شفاف انکوائری کو یقینی بنایا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں