پنجاب و خیبرپختونخوا انتخابات کا معاملہ: کیا اسمبلیاں آئین کے مطابق تحلیل کی گئیں، جسٹس اطہر من اللہ کا سوال

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی — سپریم کورٹ آف پاکستان
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی — سپریم کورٹ آف پاکستان

سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے از خود نوٹس کی سماعت میں جسٹس اطہر من اللہ کے اس سوال کو بھی کارروائی کا حصہ بنا لیا گیا کہ کیا دونوں اسمبلیاں آئین کے مطابق تحلیل کی گئیں۔

از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ اس بات کا تعین کرے گی کہ آئین کے تحت مختلف حالات میں کسی صوبائی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری اور اختیار کس کے پاس ہے۔

آج چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ کے بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے تین معاملات کو سننا ہے، صدر پاکستان نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا، عدالت کے پاس وقت کم ہے، الیکشن کے حوالے سے وقت جارہا ہے۔

دوران سماعت بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم صدر پاکستان سے متعلق چیزیں ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ‏سیکشن 57 کے تحت صدر مملکت نے انتخابات کا اعلان کیا، وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہماری درخواست زیر التوا ہے اسے بھی ساتھ سنا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے 3 معاملات ہیں، دیکھنا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار کس کو ہے، ‏ہمارے سامنے ہائی کورٹ کا 10 فروری کا آرڈر تھا، ہمارے سامنے بہت سے عوامل تھے۔

جسٹس جمال مندوخیل کا ازخود نوٹس پر تحفظات کا اظہار

اس دوران اٹارنی جنرل نے کیس کی تیاری کے لیے وقت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اتنے لوگوں کو نوٹس ہوگا تو کل کے لیے تیاری مشکل ہوپائے گی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، کیس کی تفصیلی سماعت پیر کو کریں گے، ہمارے سامنے بہت سے عوامل تھے جن کی بنیاد پر از خود نوٹس لیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ میں لمبی کارروائی چل رہی ہے، وقت گزرتا جارہا ہے، اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ از خود نوٹس پر میرے تحفظات ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ از خود نوٹس بعد میں لیا، پہلے اسپیکرز کی درخواستیں دائر ہوئیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بینچ میں تھے جس میں چیف الیکشن کمشنر کو بلایا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ بہت سی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے ازخود نوٹس لیا گیا، آئین انتخابات کا وقت بتاتا ہے جو ختم ہو رہا ہے، ہائی کورٹ کا فورم بائی پاس کیا جاسکتا ہے اگر ایمرجنسی ہو، سپریم کورٹ کے لیے آسان تھا کہ دو دائر درخواستیں مقرر کر دیتی۔

‏انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا وقت بڑھ سکتا ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ سیکشن 57 انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے ہے، بہت سے نئے نکات آگئے ہیں جن کی تشریح ضروری ہے، سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، ‏انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا وقت بڑھ سکتا ہے، ہم نے آئین کو دیکھنا ہے کہ اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کی خلاف وزری کسی صورت برداشت نہیں کرے گی، دو درخواستیں ہیں وہ اب آؤٹ ڈیٹڈ ہوگئی ہیں، اس پر وضاحت کی ضرورت ہے، 20 فروری کو صدر کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد صورتحال بدل گئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کچھ سوال دونوں اسمبلیوں کے اسپیکرز نے اپنی درخواستوں میں شامل کیے ہیں، سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرانا ہے، انتحابات کا ایشو وضاحت طلب ہے، ہم ارادہ رکھتے ہیں آپ سب کو سنیں، ہم نے آئندہ ہفتے کا شیڈول منسوخ کیا ہے تاکہ یہ کیس چلا سکیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے ازخود نوٹس سے متعلق کچھ تحفظات ہیں، یہ ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے اسپیکر کی درخواست ہیں، یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے نوٹ پر لیا گیا، اس کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو بھی بلایا گیا ہے جو کہ فریق نہیں ہیں۔

دوران سماعت وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ازخود نوٹس میں اگر فیصلہ انتخابات کرانے کا آتا ہے تو سب کو فائدہ ہوگا، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے تو سب سیاسی جماعتیں فائدہ حاصل کریں گی، شعیب شاہین نے کہا کہ یہ ٹائم باؤنڈ کیس ہے اس میں انتخابات کرانے کا ایشو ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ‏آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہوں گے، ‏وقت جلدی سے گزر رہا ہے، ہائی کورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا۔

دوران سماعت جسٹس جمال جان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ چھ آڈیوز سامنے آئی ہیں، جس میں عابد زبیری کچھ ججز کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، ان حالات میں میری رائے میں یہ کیس 184 (3) کا نہیں بنتا۔

عدالت نے کہا کہ ہمارے سامنے 2 درخواستیں دائر ہوتی ہیں جن میں انتحابات کی تاریخ کے اعلان کی ناکامی کا کہا گیا، اسپیکرز کی درخواست دائر ہونے سے پہلے ہی صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کے درمیان خط و کتابت ہوئی، 22 فروری کو صدر مملکت نے انتحابات کی تاریخ دے دی، صدر مملکت نے 9 اپریل کو انتحابات کی تاریخ دی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو گورنر کی مشاورت سے تاریخ دینے کا کہا، ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف الیکشن کمیشن اور گورنر نے اپیلیں دائر کی، پشاور ہائی کورٹ میں بھی مقدمہ زیر سماعت ہے، اسمبلیاں تحلیل ہونے کے چھ ہفتے بعد بھی انتحابات کی تاریخ کا معاملہ عدالتوں میں زیر التوا ہے۔

عدالت نے کہا کہ آئین 90 دنوں میں الیکشن کا کہتا ہے، 22 فروری کو بینچ کی درخواست پر ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کیا، ازخود نوٹس میں تین سوالات کا تعین کیا جائے گا، اس دوران عدالت کی جانب سے اٹارنی جنرل پاکستان، ایڈووکیٹ جنرلز کو 27-اے کے نوٹسز جاری کردیے گئے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ پشاور ہائی کورٹ میں ایسے ہی کیس کی سماعت 28 فروری کو ہے، از خود نوٹس میں کچھ سوالات الیکشن کمیشن ایکٹ کے سیکشنز 27 اور 28 سے متعلق اٹھائے گئے، جسٹس اطہر من اللہ کے سوال کو ان سوالات میں شامل کیا جائے گا۔

دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کیا پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں آئین کے مطابق تحلیل کی گئیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس سوال کو بھی عدالتی کارروائی کا حصہ بناتے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کیا وجوہات کے بغیر تحلیل کی گئی اسمبلیاں کیا دوبارہ بحال ہوسکتی ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس سوال کو بھی عدالتی کارروائی کا حصہ بناتے ہیں۔

ہوسکتا ہے عدالت بغیر وجوہات کے تحلیل کی گئی اسمبلیاں دوبارہ بحال کردے، جسٹس منصور

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہوسکتا ہے عدالت بغیر وجوہات کے تحلیل کی گئی اسمبلیاں دوبارہ بحال کردے، کیا وزیر اعلیٰ سیاسی جماعت کے سربراہ کی ہدایات پر عمل کرنے کا پابند ہے، عوام نے تو پانچ سال کے لیے اسمبلیوں کو مینڈیٹ دیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جج صاحبان کی طرف سے اٹھائے گئے تمام سوالات کو عدالتی کارروائی کا حصہ بناتے ہیں۔

اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم نے اس کیس میں آئینی شق پر بات کر رہے ہیں، پہلا سوال یہ ہوگا کہ اسمبلی آئین کے تحت تحلیل ہوئیں یا نہیں، دوسرا سوال یہ ہے کہ اسمبلی کو بھی 184 (3) میں دیکھنا چاہیے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرے خیال میں تمام سیاسی جماعتوں کو سننا چاہیے، جمہوریت میں سیاسی جماعتیں حکومت بناتی ہیں۔

دوران سماعت ایک وکیل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں اور حکومت کو قانونی مؤقف دینا چاہیے، اس لیے بلایا جاسکتا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ ایک اہم ایشو ہے، اس کا مقصد شفافیت اور عدالتوں پر اعتماد کی بات ہے۔

وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ ہائی کورٹ کا ریکارڈ منگوایا جائے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو بھی سنا جائے، وکیل عابد زبیری نے کہا کہ صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ جاری کی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ جب اسپیکرز نے درخواست دی اس وقت صدر اور الیکشن کمیشن میں خط و کتابت شروع ہوئی، درخواستوں میں گورنرز کی جانب سے الیکشن کا اعلان نہ کرنے کو چیلنج کیا گیا۔

اس دوران سپریم کورٹ نے صدر پاکستان، حکومت پاکستان، الیکشن کمشن کو نوٹس جاری کردیا، سپریم کورٹ کی جانب سے گورنر پنجاب، گورنر خیبر پختونخوا اور چیف سیکریٹری کو بھی نوٹس جاری کردیے گئے۔

عدالت نے کہا کہ صدر مملکت، گورنرز کے پرنسپل سیکریٹری ریکارڈ پیش کریں، عدالت نے پاکستان بار کونسل، صدر سپریم کورٹ بار سمیت چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کردیے، عدالت نے کہا کہ پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی عدالت کی معاونت کریں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا ہائی کورٹ بار نے درخواست کے لیے قرارداد منظور کی ہے، شعیب شاہین نے کہا کہ دس میں ایک سے قرارداد منظور کی ہے، الیکشن کا حکم کسی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں ہوگا، یہ درخواست کسی کے خلاف نہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ فریقین کو آنے دیں اور بتانے دیں کہ الیکشن چاہتے ہیں یا نہیں، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ یہاں ایشو یہ ہے کہ اسمبلی کی تحلیل اور عام انتخابات کیسے ہوں گے، اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس میں پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کو نوٹس کیا گیا تھا، موجودہ کیس اسپیکر رولنگ سے مختلف ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آج ہم نوٹس کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے، اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ کی جانب سے یہ از خود نوٹس ایسے وقت میں لیا گیا جب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پیر کے روز یکطرفہ طور پر پنجاب اور خیبر پختون خوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا جس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر مشاورت کے لیے ان کی دعوت کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس کا از خود نوٹس

گزشتہ روز چیف جسٹس عمر عطابندیال نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی درخواست پر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجربینچ تشکیل دے دیا تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی درخواست پر لیے گئے از خود نوٹس میں کہا کہ ’عدالت کے دو رکنی بینچ کی جانب سے 16 فروری 2023 کو ایک کیس میں آئین کے آرٹیکل-184 تھری کے تحت از خود نوٹس لینے کی درخواست کی گئی تھی‘۔

نوٹس میں کہا گیا کہ انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے سپریم کورٹ میں مزید درخواستیں بھی دائر کر دی گئی ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجز بینچ تشکیل دیا ہے، جس میں سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود شامل نہیں ہیں۔


بینچ کے سامنے جائزے کے لیے سوالات:

  • مختلف حالات میں صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات کے لیے تاریخ مقرر کرنے کا آئینی اختیار کس کے پاس ہے؟
  • یہ آئینی ذمہ داری کب اور کیسے ادا ہو گی؟
  • عام انتخابات کے انعقاد کے لیے وفاق اور صوبوں کی آئینی ذمہ داریاں اور فرائض کیا ہیں؟

چیف جسٹس عمر عطابندیال کی جانب سے سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے صدر شعیب شاہین، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل علی ظفر، اسپیکر پنجاب اسمبلی اور اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کے وکلا کو بھی آج کے لیے نوٹس کیے گئے تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے صدر شعیب شاہین نے سپریم کورٹ بار کے صدر کے ذریعے درخواست دائر کر رکھی تھی، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے اسپیکر نے بھی انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے درخواستیں دی ہوئی ہیں۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سمیت دیگر درخواست گزاروں کو بھی نوٹس جاری کیا تھا۔

ازخود نوٹس میں چیف جسٹس نے کہا کہ معاملے کا تناظر یہ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں بالترتیب 14 جنوری اور 18 جنوری کو تحلیل کی گئیں تھیں۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کے وزرائے اعلیٰ نے ان کے متعلقہ گورنرز کو مشورہ دیا کہ آئین کے آرٹیکل 112(1) کے تحت اسمبلی تحلیل کی جائے۔

چیف جسٹس کی طرف سے ازخود نوٹس میں لارجر بینچ کے لیے تین سوالات رکھے ہیں جن پر غور کیا جائے گا۔

ازخود نوٹس میں کہا گیا ہے کہ مختلف حالات میں صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد آئین میں صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ مقرر کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ یہ آئینی ذمہ داری کب اور کیسے ادا ہو گی؟ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے وفاق اور صوبوں کی آئینی ذمہ داریاں اور فرائض کیا ہیں؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نوٹس میں کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کرنے کی ہدایت کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر پنجاب اور الیکشن کمیشن نے انٹراکورٹ اپیلیں دائر کررکھی ہیں جو اس وقت زیر التوا ہیں۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ گورنر نے وزیراعلیٰ کی تجویز پر اسمبلی تحلیل نہیں کی اور ان کا مؤقف ہے کہ چونکہ انہوں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی تو ان کی ذمہ داری یا اختیار نہیں کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے، الیکشن کمیشن نے بھی پوزیشن لی ہوئی ہے کہ آئین کے تحت ان کے پاس عام انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں ہے اور میڈیا میں رپورٹ کے مطابق یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کمیشن آئین کے تحت انتخابات کروانے کے لیے پرعزم ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے گورنر نے بھی انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ نہیں دی ہے اور اس حوالے سے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست زیر سماعت ہے۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے نوٹس میں کہا کہ صدر مملک نے ایک پوزیشن لی کہ ان کے پاس تاریخ دینے کا اختیار اور ذمہ داری ہے اور اعلان کیا کہ 9 اپریل کو انتخابات ہوں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کو دو ہفتے کا عرصہ گزر چکا ہے اور بظاہر عام انتخابات کی تاریخ کا تعین نہیں ہوا ہے جوانتخابات کے انعقاد کے لیے پہلا قدم ہے اور یہ معاملہ تاحال حل نہیں ہوا ہے۔

نوٹس میں کہا گیا کہ آئینی عہدیداروں کے درمیان اس معاملے پر اختلاف رائے ہے اور کئی وفاقی وزرا نے صدارت کے اختیار پر اختلاف کیا ہے، وزرا آئین کے تحت مشترکہ ذمہ داری ہوتی ہے اور بظاہر یہ وفاقی کابینہ کی جانب سے مجموعی طور پر لیا گیا مؤقف ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اہم آئینی معاملے پر وضاحت نہیں ہے اس لیے اس کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔

نوٹس میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن سے منسوب بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو درکار تعاون خاص طور پر ضروری فنڈ، عملہ اور سیکیورٹی کی فراہمی نہیں کی جا رہی ہے اور اسی لیے آئین کے مطابق الیکشن کمیشن عام انتخابات کے انعقاد سے معذور ہے۔

چیف جسٹس نے مذکورہ وجوہات کی روشنی میں کہا کہ میری نظر میں یہ مسائل عدالت کی جانب سے فوری توجہ اور حل کی ضرورت ہے، آئین کی کئی شقوں اور الیکشن ایکٹ کی متعلقہ سیکشنز کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

نوٹس میں کہا گیا کہ یہ معاملہ آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا بنیادی حق ہے، دونوں صوبوں میں حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ آئین کے مطابق عمل کرے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملات وسیع تر عوامی مفاد میں آئینی اہمیت کے حامل ہیں۔

واضح رہے کہ 20 فروری کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا۔

ایوان صدر سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر عارف علوی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 ایک کے تحت 9 اپریل بروز اتوار کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات کا اعلان کر دیا ہے۔

خط میں الیکشن کمیشن کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 دو کے تحت الیکشن کا پروگرام جاری کرے اور چونکہ کسی بھی عدالتی فورم کی جانب سے کوئی حکم امتناع نہیں لہٰذا سیکشن 57 ایک کے تحت صدر کے اختیار کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

صدر عارف علوی نے لکھا تھا کہ آئین کے تحت آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف لیا ہے، آئین اور قانون 90 دن سے زائد کی تاخیر کی اجازت نہیں دیتا لہٰذا آئین کی خلاف ورزی سے بچنے کے لیے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اپنا آئینی اور قانونی فرض ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

انہوں نے لکھا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنرز صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 دن کے اندر اندر الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کی اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے، الیکشن کمیشن بھی پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کی اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا، دونوں آئینی دفاتر اردو کی پرانی مثل ’پہلے آپ نہیں، پہلے آپ‘ کی طرح گیند ایک دوسرے کے کورٹ میں ڈال رہے ہیں، اس طرزِ عمل سے تاخیر اور آئینی شقوں کی خلاف ورزی کا سنگین خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔

یاد رہے کہ 12 جنوری کو وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے سمری پر دستخط کر دیے تھے۔

وزیراعلیٰ پرویز الہٰی کی جانب سے گورنر پنجاب کو جاری مختصر ایڈوائس میں کہا گیا تھا کہ ’میں پرویز الہٰی، وزیراعلیٰ پنجاب، آپ کو ایڈوائس کر رہا ہوں کہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی تحلیل کردیں‘۔

گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے وزیراعلیٰ کی جانب سے ارسال کی گئی سمری پر دستخط نہیں کیے تھے، جس کے بعد صوبائی اسمبلی 48 گھنٹوں میں از خود تحلیل ہوگئی تھی۔

بعدازاں 18 جنوری کو گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے وزیر اعلیٰ محمود خان کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے سے متعلق ارسال کی گئی سمری پر دستخط کیے تھے۔

گورنر خیبر پختونخوا کی جانب سے وزیر اعلیٰ محمود خان اور قائد حزب اختلاف اکرم خان درانی کو ارسال کیے گئے اسمبلی تحلیل کرنے کے نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ خیبرپختونکوا اسمبلی اور صوبائی کابینہ کو آئین کے آرٹیکل 112 کی شق ون کے تحت فوری طور پر تحلیل کردیا گیا ہے۔

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے آئین کے آرٹیکل 112 (1) کے تحت اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری 17 جنوری کو گورنر کو ارسال کی تھی۔

دونوں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے نئے انتخابات کے لیے تاریخ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

پی ٹی آئی نے 27 جنوری کو پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تاریخ کا فوری اعلان کرنے کا حکم دیا تھا۔

جسٹس جواد حسن نے مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 روز میں انتخابات کرانے کا پابند ہے اور اسی لیے الیکشن کا شیڈول فوری طور پر جاری کردیا جائے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ’الیکشن کمیشن کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ صوبے کے آئینی سربراہ گورنر پنجاب سے مشاورت کے بعد پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نوٹی فکیشن کے ساتھ فوری کرے اور یقینی بنائے کہ انتخابات آئین کی روح کے مطابق 90 روز میں ہوں‘۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن نے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن سے صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات کے لیے مشاورت کی تھی تاہم اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا تھا۔

اجلاس کے بعد سیکریٹری الیکشن کمیشن نے بتایا تھا کہ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے فی الحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

گورنر پنجاب نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر اپیل دائر کی تھی اور اس کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی انٹراکورٹ اپیل دائر کر دی تھی۔

دوسری جانب پشاور ہائی کورٹ نے آج الیکشن کمیشن آف پاکستان اور گورنر خیبر پختونخوا کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا حکم دینے سے متعلق درخواستوں پر ای سی پی سے الیکشن شیڈول طلب کرلیا تھا۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس سید ارشد علی پر مشتمل بینچ نے 18 جنوری کو تحلیل ہونے والی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے شیڈول کے اعلان میں تاخیر کے خلاف 2 درخواستوں پر سماعت کی تھی۔

سماعت کے دوران جسٹس ارشد علی نے کہا تھا کہ اب تو صدر مملکت نے تاریخ دی ہے، دو تاریخیں تو نہیں ہوسکتیں، اب ہم الیکشن کمیشن سے پوچھیں گے کہ اب کیا ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں