صوبوں میں انتخابات: حکومتی اتحاد کا جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس مظاہر نقوی کی بینچ میں شمولیت پر اعتراض

اپ ڈیٹ 24 فروری 2023
فاروق نائیک نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض ہے — سپریم کورٹ آف پاکستان
فاروق نائیک نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض ہے — سپریم کورٹ آف پاکستان

سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کا مشترکہ بیان پڑھتے ہوئے کہا کہ 2 ججز کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض ہے، اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی اپنے آپ کو بینچ سےالگ کردیں۔

از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ اس بات کا تعین کرے گی کہ آئین کے تحت مختلف حالات میں کسی صوبائی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری اور اختیار کس کے پاس ہے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ کے بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔

دوران سماعت سابق اسپیکرز کے وکیل بیرسٹر علی ظفر، جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ، پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، نیئر بخاری، فرحت اللہ بابر، مسلم لیگ (ن) کے وکیل منصور اعوان، گورنر پنجاب کے وکیل مصطفیٰ رمدے، وائس چیئرمین پاکستان بار، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری، صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار شعیب شاہین، اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہیٰ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن، پی ٹی آئی رہنما عامر محمود کیانی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

سماعت کے آغاز پر مسلم لیگ (ن) کے وکیل منصور اعوان نے مؤقف اپنایا کہ حکم کی کاپی ابھی تک دستیاب نہیں ہوئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج اکٹھے ہونے کا مقصد تھا سب کو علم ہوجائے، مختلف فریقین کے وکلا کو عدالت میں دیکھ کر خوشی ہوئی۔

معاملے پر فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے، فاروق نائیک کی استدعا

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمیں کوئی نوٹس تو نہیں ملا، درخواست ہے سب کو نوٹس جاری کیے جائیں، بینچ کی تشکیل پر ہمیں 2 ججز پر اعتراض ہے، دونوں ججز کو بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آج پہلے سب کی حاضری لگائیں گے، پیر کو سب کو سنیں گے، چار صوبائی وکلا کی نمائندگی عدالت میں موجود ہے۔

دوران سماعت جے یو آئی (ف)، مسلم لیگ (ن)، پاکستان بار کونسل کی جانب سے 2 ججز پر اعتراض کیا گیا، اس موقع پر فاروق ایچ نائیک نے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کا مشترکہ بیان عدالت میں پڑھا، بیان میں کہا گیا کہ دونوں ججز مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) کے کسی بھی مقدمے کی سماعت نہ کریں۔

دوران سماعت پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ نہایت احترام سے ججز کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض کر رہا ہوں، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض ہے، اعتراض کرنے کا فیصلہ ہمارے قائدین نے کیا ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل کے نوٹ کے بعد جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی اپنے آپ کو بینچ سے الگ کر لیں۔

انہوں نے کہا کہ میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جے یو آئی کا متفقہ بیان پڑھ رہا ہوں، تینوں سیاسی جماعتیں احترام سے کہتی ہیں کہ دو رکنی بینچ کا ازخود نوٹس کا حکم سامنے ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا عدالت میں پڑھا گیا بیان بھی ہے، انصاف کی فراہمی اور فئیر ٹرائل کے تناظر میں دونوں ججز صاحبان کو بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔

اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ 184/3 سے متعلق سمجھتا ہوں، کیوں نہ یہ معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے، فاروق نائیک نے کہا کہ اس وقت میں اس کی گہرائی میں نہیں جاؤں گا، میرا بھی یہی خیال ہے کہ معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم پہلے کیس میں اس کے قابل سماعت ہونے پر بات کر یں گے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ معاملہ فل کورٹ سنے، فاروق نائیک نے کہا کہ چیف جسٹس سے درخواست کرتا ہوں کہ اس معاملے پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

فاروق نائیک نے مشترکہ بیان کا متعلقہ پیراگراف پڑھتے ہوئے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے سوموٹو کا نوٹ لکھا، گزشتہ روز جسٹس جمال مندوخیل نے ایک نوٹ لکھا، جسٹس مندوخیل کا نوٹ انتہائی تشویشناک ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کے پاس وہ نوٹ ہے، یہ نوٹ تو تحریری حکمنامہ کا حصہ ہے جس پر ابھی دستخط نہیں ہوئے، وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ ازخود نوٹس 2 رکنی بینچ کی سفارش پر لیا گیا، سوال یہ ہے کیا ایسے ازخود نوٹس لیا جاسکتا ہے، واضح کرتا ہوں کہ کوئی ذاتی وجوہات نہیں ہیں۔

عام طور پر شہری عدالتی دہلیز پر دستک دیتے ہیں، آج آئین نے دستک دی، چیف جسٹس

دوران سماعت عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے وکیل اظہر صدیق ویڈیو لنک پر پیش ہوئے، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ عدلیہ کے خلاف جو زبان استعمال کی جارہی ہے اس پر نوٹس لیاجائے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے، اپنی جماعتوں سے کہیں کہ یہ معاملہ عدالت کیوں سنے جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اپنی جماعت سے اس معاملے پر ہدایت لوں گا۔

شیخ رشید کے وکیل نے مریم نواز کے جلسے کا نام لیے بغیر تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جلسے میں اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے خلاف تضحیک آمیز گفتگو کی گئی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس معاملے کو بعد میں دیکھیں گے۔

اس موقع پر وکیل پیپلز پارٹی نے کہا کہ میری استدعا ہے کہ سپریم کورٹ پہلے پی ڈی ایم کی جانب سے بینچ پر اٹھائے گئے اعتراض کو سنے، چیف جسٹس نے کہا کہ عام طور پر شہری عدالت کی دہلیز پر دستک دیتے ہیں، آج ہماری دہلیز پر آئین پاکستان نے دستک دی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جس سوال پر ازخود نوٹس لیا گیا یہ سیاسی معاملہ ہے، پارلیمنٹ لے کر جائیں، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ نہیں سمجھتے اس معاملے کو تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ بینچ کو سنا جانا چاہیے، عدالت نے کہا پیر کے دن فل کورٹ بینچ بنانے یا نہ بنانے کے سوال پر سماعت ہوگی، پیر کے دن 2 ججز پر اٹھائے گئے اعتراض کو بھی سنیں گے۔

اس موقع پر عدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس کیس کی مزید سماعت پیر ساڑھے 11 بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ کے اس سوال کو بھی کارروائی کا حصہ بنا لیا گیا تھا کہ کیا دونوں اسمبلیاں آئین کے مطابق تحلیل کی گئیں جب کہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا تھا کہ ازخود نوٹس پر میرے تحفظات ہیں۔

سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے صدر پاکستان، حکومت پاکستان، الیکشن کمشن پاکستان، گورنر پنجاب، گورنر خیبر پختونخوا، چیف سیکریٹری، پاکستان بار کونسل، صدر سپریم کورٹ بار سمیت چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز، اٹارنی جنرل پاکستان، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو نوٹس جاری کیے تھے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے یہ ازخود نوٹس ایسے وقت میں لیا گیا جب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پیر کے روز یکطرفہ طور پر پنجاب اور خیبر پختون خوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا جس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر مشاورت کے لیے ان کی دعوت کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس کا از خود نوٹس

2 روز قبل چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی درخواست پر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجربینچ تشکیل دے دیا تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی درخواست پر لیے گئے از خود نوٹس میں کہا کہ ’عدالت کے دو رکنی بینچ کی جانب سے 16 فروری 2023 کو ایک کیس میں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت از خود نوٹس لینے کی درخواست کی گئی تھی‘۔

نوٹس میں کہا گیا کہ انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے سپریم کورٹ میں مزید درخواستیں بھی دائر کردی گئی ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجز بینچ تشکیل دیا ہے، جس میں سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود شامل نہیں ہیں۔


بینچ کے سامنے جائزے کے لیے سوالات:

  • مختلف حالات میں صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات کے لیے تاریخ مقرر کرنے کا آئینی اختیار کس کے پاس ہے؟
  • یہ آئینی ذمہ داری کب اور کیسے ادا ہو گی؟
  • عام انتخابات کے انعقاد کے لیے وفاق اور صوبوں کی آئینی ذمہ داریاں اور فرائض کیا ہیں؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے صدر شعیب شاہین، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل علی ظفر، اسپیکر پنجاب اسمبلی اور اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کے وکلا کو بھی نوٹس کیے گئے تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے صدر شعیب شاہین نے سپریم کورٹ بار کے صدر کے ذریعے درخواست دائر کر رکھی تھی، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے اسپیکر نے بھی انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے درخواستیں دی ہوئی ہیں۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سمیت دیگر درخواست گزاروں کو بھی نوٹس جاری کیا تھا۔

ازخود نوٹس میں چیف جسٹس نے کہا کہ معاملے کا تناظر یہ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں بالترتیب 14 جنوری اور 18 جنوری کو تحلیل کی گئیں تھیں۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کے وزرائے اعلیٰ نے ان کے متعلقہ گورنرز کو مشورہ دیا کہ آئین کے آرٹیکل 112(1) کے تحت اسمبلی تحلیل کی جائے۔

چیف جسٹس کی طرف سے ازخود نوٹس میں لارجر بینچ کے لیے تین سوالات رکھے ہیں جن پر غور کیا جائے گا۔

ازخود نوٹس میں کہا گیا ہے کہ مختلف حالات میں صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد آئین میں صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ مقرر کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ یہ آئینی ذمہ داری کب اور کیسے ادا ہو گی؟ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے وفاق اور صوبوں کی آئینی ذمہ داریاں اور فرائض کیا ہیں؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نوٹس میں کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کرنے کی ہدایت کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر پنجاب اور الیکشن کمیشن نے انٹراکورٹ اپیلیں دائر کررکھی ہیں جو اس وقت زیر التوا ہیں۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ گورنر نے وزیر اعلیٰ کی تجویز پر اسمبلی تحلیل نہیں کی اور ان کا مؤقف ہے کہ چونکہ انہوں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی تو ان کی ذمہ داری یا اختیار نہیں کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے، الیکشن کمیشن نے بھی پوزیشن لی ہوئی ہے کہ آئین کے تحت ان کے پاس عام انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں ہے اور میڈیا میں رپورٹ کے مطابق یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کمیشن آئین کے تحت انتخابات کروانے کے لیے پرعزم ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے گورنر نے بھی انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ نہیں دی ہے اور اس حوالے سے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست زیر سماعت ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نوٹس میں کہا کہ صدر مملک نے ایک پوزیشن لی کہ ان کے پاس تاریخ دینے کا اختیار اور ذمہ داری ہے اور اعلان کیا کہ 9 اپریل کو انتخابات ہوں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کو دو ہفتے کا عرصہ گزر چکا ہے اور بظاہر عام انتخابات کی تاریخ کا تعین نہیں ہوا ہے جوانتخابات کے انعقاد کے لیے پہلا قدم ہے اور یہ معاملہ تاحال حل نہیں ہوا ہے۔

نوٹس میں کہا گیا کہ آئینی عہدیداروں کے درمیان اس معاملے پر اختلاف رائے ہے اور کئی وفاقی وزرا نے صدارت کے اختیار پر اختلاف کیا ہے، وزرا آئین کے تحت مشترکہ ذمہ داری ہوتی ہے اور بظاہر یہ وفاقی کابینہ کی جانب سے مجموعی طور پر لیا گیا مؤقف ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اہم آئینی معاملے پر وضاحت نہیں ہے اس لیے اس کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔

نوٹس میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن سے منسوب بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو درکار تعاون خاص طور پر ضروری فنڈ، عملہ اور سیکیورٹی کی فراہمی نہیں کی جا رہی ہے اور اسی لیے آئین کے مطابق الیکشن کمیشن عام انتخابات کے انعقاد سے معذور ہے۔

چیف جسٹس نے مذکورہ وجوہات کی روشنی میں کہا کہ میری نظر میں یہ مسائل عدالت کی جانب سے فوری توجہ اور حل کی ضرورت ہے، آئین کی کئی شقوں اور الیکشن ایکٹ کی متعلقہ سیکشنز کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

نوٹس میں کہا گیا کہ یہ معاملہ آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا بنیادی حق ہے، دونوں صوبوں میں حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ آئین کے مطابق عمل کرے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملات وسیع تر عوامی مفاد میں آئینی اہمیت کے حامل ہیں۔

واضح رہے کہ 20 فروری کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا۔

ایوان صدر سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر عارف علوی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 ایک کے تحت 9 اپریل بروز اتوار کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات کا اعلان کر دیا ہے۔

خط میں الیکشن کمیشن کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 دو کے تحت الیکشن کا پروگرام جاری کرے اور چونکہ کسی بھی عدالتی فورم کی جانب سے کوئی حکم امتناع نہیں لہٰذا سیکشن 57 ایک کے تحت صدر کے اختیار کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

یاد رہے کہ 12 جنوری کو وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے سمری پر دستخط کر دیے تھے۔

وزیراعلیٰ پرویز الہٰی کی جانب سے گورنر پنجاب کو جاری مختصر ایڈوائس میں کہا گیا تھا کہ ’میں پرویز الہٰی، وزیراعلیٰ پنجاب، آپ کو ایڈوائس کر رہا ہوں کہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی تحلیل کردیں‘۔

گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے وزیراعلیٰ کی جانب سے ارسال کی گئی سمری پر دستخط نہیں کیے تھے، جس کے بعد صوبائی اسمبلی 48 گھنٹوں میں از خود تحلیل ہوگئی تھی۔

بعدازاں 18 جنوری کو گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے وزیر اعلیٰ محمود خان کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے سے متعلق ارسال کی گئی سمری پر دستخط کیے تھے۔

دونوں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے نئے انتخابات کے لیے تاریخ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

پی ٹی آئی نے 27 جنوری کو پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تاریخ کا فوری اعلان کرنے کا حکم دیا تھا۔

جسٹس جواد حسن نے مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 روز میں انتخابات کرانے کا پابند ہے اور اسی لیے الیکشن کا شیڈول فوری طور پر جاری کردیا جائے۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن نے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن سے صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات کے لیے مشاورت کی تھی تاہم اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا تھا۔

گورنر پنجاب نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر اپیل دائر کی تھی اور اس کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی انٹراکورٹ اپیل دائر کر دی تھی۔

دوسری جانب پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور گورنر خیبر پختونخوا کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا حکم دینے سے متعلق درخواستوں پر ای سی پی سے الیکشن شیڈول طلب کرلیا تھا۔

سماعت کے دوران جسٹس ارشد علی نے کہا تھا کہ اب تو صدر مملکت نے تاریخ دی ہے، دو تاریخیں تو نہیں ہوسکتیں، اب ہم الیکشن کمیشن سے پوچھیں گے کہ اب کیا ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں