سیلاب متاثرین سے کیا گیا وعدہ پورا نہ ہوا تو اپنی وزارت رکھنا مشکل ہوگا،بلاول بھٹو زرداری

05 مارچ 2023
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر ڈجیٹل مردم شماری پر سندھ کے اعتراضات کو حل نہیں کیا جاتا تو پھر سندھ حکومت اس عمل میں وفاقی حکومت کا ساتھ نہیں دے گی—فوٹو: ڈان نیوز
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر ڈجیٹل مردم شماری پر سندھ کے اعتراضات کو حل نہیں کیا جاتا تو پھر سندھ حکومت اس عمل میں وفاقی حکومت کا ساتھ نہیں دے گی—فوٹو: ڈان نیوز

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وزیراعظم شہباز شریف نے سیلاب متاثرین کے لیے وعدہ کیا ہے تو وہ پورا ہونا چاہیے ورنہ ہمارے لیے اپنی وزارت رکھنا مشکل ہوگا۔

وزیراعلیٰ ہاؤس میں کسانوں کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ’سیڈ سپورٹ‘ پرووگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے جو وعدہ کیا گیا اور جو مالی مدد دینی چاہیے تھی وہ ابھی تک نہیں ملی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ امید ہے کہ جہاں سندھ حکومت نے اپنے بجٹ میں کسانوں کی مدد کے لیے 1.39 ارب روپے رکھے ہیں وہاں وفاقی حکومت کی طرف سے 4.7 ارب کا وعدہ پورا ہونا چاہیے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ سیلاب متاثرین کو ترجیح دے اور اگر وزیراعظم نے سیلاب متاثرین کے لیے کوئی وعدہ کیا ہے تو وہ وعدہ پورا ہونا چاہیے ورنہ ہمارے لیے اپنی وزارت رکھنا مشکل ہوگا۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سیلاب متاثرین شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اس لیے سندھ حکومت ہر طرح سے ان کی مدد کر رہی ہے۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ تاریخی مون سون کی وجہ سے پاکستان کے 50 لاکھ ایکڑ پر مشتمل کھڑی فصل کو نقصان پہنچا جس کی وجہ سے پاکستانی معشیت کو بہت بڑا دھچکا لگا جس کے اثرات ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جہاں قدرتی آفت کی وجہ سے زرعی معیشت کو نقصان پہنچا وہاں وفاقی حکومت کی طرف سے زرعی معیشت کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جارہا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کو صوبائی حکومتوں سے مل کر سرمایہ کاری کرنی چاہیے تھی، کسان اور ہاری کی معاونت کرنی چاہیے تھی تاکہ زرعی معیشت میں ترقی دیکھ سکیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستانی حکومت زراعت پر سرمایہ کاری کو توجہ نہیں دے گی تو پھر پاکستان زرعی ملک کیسے رہے گا، اگر چھوٹے کاشت کاروں کی معاونت کی جائے تو نہ صرف پاکستان کی ضروریات پوری ہوں گی بلکہ دنیا کو بھی درآمد کر سکتے ہیں۔

’کسانوں کے لیے مالی پروگرام‘

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آصف علی زرداری کے صدر بننے سے قبل گندم، چینی اور چاول باہر سے امپورٹ کیے جاتے تھے اور یوکرین کے کسانوں کو ڈالر میں ادائگیاں کرکے ان کا مال خریدا گیا مگر اپنے کسانوں کو اتنی رقم روپیوں میں ادا کرکے فصل خریدا جا سکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری نے ایک سال کے اندر زرعی معیشت میں سرمایہ کاری کرکے، چھوٹے کسانوں کی معاونت کی اور ایک سال کے اندر وہی ڈالر کی قیمت اپنے کسانوں کو دی جنہوں نے دکھا دیا کہ ہم کس طرح پورے پاکستان کی ضروریات پوری کرتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کے جانے کے بعد یہ پالیسی برقرار نہیں رکھی گئی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ معاشی بحران پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کا دور ہے اور کسانوں کے اخراجات بہت زیادہ ہوگئے ہیں اس لیے سندھ حکومت نے ایک پروگرام متعارف کرایا ہے جس میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ساتھ ملکر چھوٹے زمینداروں اور کسانوں کو مالی طور پر مدد کریں گے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان کے لوگوں کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی اور بیروزگاری ہے لیکن ٹی وی چینلز پر ہر دن ہر رات کوئی اور سیاسی شوشہ چلتا ہے مگر اصل مسئلہ پاکستانی عوام کی معاشی تکلیف کو حل کرنا ہے جو ہم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرف سے کرتے رہیں گے۔

’ٹی وی چینلز عوامی مسائل کے بجائے زمان پارک میں چھپے ہوئے چوہے کو دکھا رہے ہیں‘

عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹی وی چینلز آج بھی عوام کے مسائل نہیں دکھا رہے اور صرف گرفتاری سے بچنے کے لیے زمان پارک میں چھپے ہوئے چوہے کو دکھا رہے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ میڈیا، سیاسی اداروں اور ہم سب کا توجہ سیاسی چوہے کے بجائے پاکستان کے مسائل کی طرف ہونا چاہیے اور تاریخی معاشی بحران کو حل کرنے کی طرف ہونا چاہیے۔

’ڈجیٹل مردم شماری کو پیپلز پارٹی قبول نہیں کرتی‘

وزیراعلیٰ سندھ کی طرف سے مردم شماری پر اٹھائے گئے اعتراضات پر بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نےکہا کہ پیپلز پارٹی نے شروع سے 2018 کی مردم شماری پر اعتراضات اٹھائے ہیں جو کہ صرف ہماری اپنے لوگوں کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ اعتراضات ہم نے اس لیے اٹھائے تھے کہ اس وقت یو این ڈی پی کی طرف سے گھروں کی مردم شماری کے اعداد و شمار آئے تھے ان میں خاص طور پر سندھ کے اعداد و شمار میں واضح فرق تھا اور دوسرے صوبوں میں وہ فرق کم تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے 2018 کے انتخابات سے قبل ہونے والے انتخابات کو اس شرط پر قبول کرنے کو کہا تھا کہ فوری طور پر پانچ فیصد کے دوبارہ سے مردم شماری کروائیں اگر وہ درست نکلتے ہیں تو ہم قبول کریں گے ورنہ پھر دوسری مردم شماری کرانا ہوگی۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ چونکہ اس مردم شماری کے پیچھے ایک سیاسی سوچ تھی کہ انتخابات آرہے ہیں کس طرح سے حلقہ بندیاں کرنی ہیں کہ ہمارے کٹھ پتلی کو فائدہ ہو اور اسی طرح اس مردم شماری پر 2018 کے انتخابات ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اب جس وقت الیکشن سامنے نظر آرہے ہیں اور اسی وقت یہ اعلان ہونا کہ ڈجیٹل مردم شماری ہوگی یہ ہمارے اعتراضات کا حل نہیں ہے اور ڈجیٹل مردم شماری میں جس طرح پیپلز پارٹی کو ردعمل مل رہا ہے اس پر نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ صوبے کے عوام کے بھی اعتراضات ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جس وقت ڈجیٹل مردم شماری کی تاریخ میں توسیع کی گئی تو مجھے بھی اسی دن اس کا پتا چلا اور جب ایک وفاقی وزیر کو ڈجیٹل مردم شماری کا پتا نہیں تو اس کا مقصد ہے عوام کو بھی پتا نہیں ہوگا لہٰذا اس قسم کا ’شارٹ کٹ‘ بلکل قبول نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ درست مردم شماری ہو، اس ڈجیٹل مردم شماری پر نہیں جس پر اعتراضات وزیراعلیٰ نے وفاقی حکومت کو بھیجے ہیں، اگر اسی غلط طریقے سے کسی کی ہدایات پر ڈجیٹل مردم شماری ہونی ہے تو پیپلز پارٹی اس کو قبول نہیں کرتی۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر ڈجیٹل مردم شماری پر سندھ کے اعتراضات کو حل نہیں کیا جاتا تو پھر سندھ حکومت اس عمل میں وفاقی حکومت کا ساتھ نہیں دے گی اگر وفاقی حکومت خود کرنا چاہتی ہے تو کرے لیکن ملک اور صوبے کے حق پر ڈاکا ڈالنے نہیں دیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں